Jan
27
|
Click here to View Printed Statement
پٹرول بحران کے دوران تجزیہ نگاروں نے بحران کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اہم عہدوں پر میاں محمد نواز شریف نے اپنے رشتہ داروں کونواز رکھا ہے اس لئے وہ کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دے سکتے۔ ایک مﺅقر انگریزی اخبار نے لکھا کہ امور مملکت تین شخصیات کے ہاتھوں میں ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اور پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شبہاز شریف کلی طور پر بااختیار ہیں اور تیسرے ظاہر ہے خود میاں محمد نوازشریف ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزراءاپنی ماتحت وزارتوں میں صرف ”ربڑ سٹیمپ“ کا کام کرتے ہیں کیونکہ سیکرٹری اور ایم ڈی براہ راست مذکورہ شخصیات سے ہدایات لیتے ہیں۔ قومی امور میں اسحاق ڈار کو ویٹو کا حق ہے۔ باقی وزراءاسحاق ڈار کی ”نظر کرم“ کے منتظر رہتے ہیں۔ اخبارات میں بڑے بڑے عہدوں پر متمکن افراد کی فہرست بھی دے دی گئی ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شریف خاندان کے نمک خوار اور وفادار ہیں۔سوال اُٹھایا گیا ہے کہ جو افسران ریاست کی بجائے ایک خاندان کے وفادار ہوں وہ بحران سے کیسے نپٹ سکتے ہیں؟۔اگر یہ مان لیا جائے کہ اہم کلیدی عہدوں پر شریف خاندان کے نمک خوار بیٹھے ہیں تو پھر یہ کیسے نمک خوار ہیں جو میاں صاحب کے لئے آئے روز کوئی نہ کوئی بحران پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی قسم کا بحران پیدا ہی نہ ہو۔کُنبہ پروری ایک فطری عمل ہے۔ جہاں بادشاہت ہوتی ہے وہاں کُنبہ پروری بھی ہوتی ہے۔ نظام چاہے جمہوری ہو یا آمریت ہو۔ حکمران کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے اہل ترین قریبی لوگوں کو اقتدار میں شامل کرے نہ کہ نااہل رشتہ داروں کی فوج بھرتی کرلے۔پاکستانی جمہوریت میں پارٹی بھی ایک خاندان ہوتا ہے کیوں الیکشن کے لئے انہی لوگوں کو ٹکٹ ملتے ہیں جن کی وفاداری کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہوتی ہے۔
پٹرول بحران کی تحقیق اور انکوائری سامنے آچکی ہے۔اوگرا پر ملبہ ڈال دیا گیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ واقعتا اوگرا کے چیئرمین کی چالاکی ہو۔لیکن لوگوں کی زبان پر یہ جملہ عام ہوگیا ہے کہ پٹرول کے وزیر شاہد خاقان عباسی کی خاطر پٹرولیم سیکرٹری سمیت تین چار اعلیٰ افسران کی قربانی دی گئی ہے۔اسحاق ڈار صاحب نے پٹرول بحران کو سازش قرار دیا ہے۔ اس سازش کو وفاقی وزیر بجلی و دفاع جناب خواجہ آصف نے از خود بے نقاب کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پٹرول بحران میں ان کی وزارت کا بھی حصہ ہے۔171 ارب روپے کی پی ایس او کو ادائیگی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے بروقت پٹرول درآمد نہیں کیا جاسکا۔
رازدان حلقے یہ بتا رہے ہیں کہ وقتی طور پر ٹل جانے والا یہ بحران اب کسی نئی شکل میں سامنے آئے گا۔عملاً صورتحال یہ ہے کہ نوے فیصد ایم این اے اور ایم پی اے میاں صاحب کے طرز حکمرانی سے سخت نالاں ہیں۔حلقے کی ترقی کے لئے جو فنڈز درکارہیں وہ جاری نہیں کئے جارہے۔وزیروں کو اختیارات نہیں سونپے جارہے۔ریاض پیرزادہ نے اپنی ناراضگی کا خوب اظہار کیا ہے۔انہوں نے پاک سعودی برادرانہ تعلقات پر آہنی ضرب لگا دی ہے۔ بہت سے ایم۔این۔اے اور وزراءنجی محفلوں میں بڑے بڑے سکینڈلز طشت ازبام کرتے پائے گئے ہیں ۔نندی پور پاور پلانٹ اور پاک چین چالیس ارب ڈالر کے معاہدوں کے حوالے سے بڑے انکشافات ہونے والے ہیں۔حکومت نے بڑی کوشش کی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم لیگ (ن) کے پارٹی عہدیداران بھی میدان میں اُتریں اور رائے عامہ ہموار کریں لیکن ان کی اکثریت حکومتی اقدامات سے لاتعلق ہوگئی ہے۔ مریم نوازشریف کو یُوتھ پروگرام سے عمران خان کے دباﺅ پر ہٹا دیا گیا تھا۔تحریک انصاف کا دباﺅ بظاہر کم ہوگیا ہے لیکن نوازشریف کی پارٹی کے اندر ایک خطرناک بھونچال تیار ہورہا ہے۔ میاں نوازشریف کو وزراءکے ساتھ ملاقاتوں کے دوران اس بھونچال کے بارے میں قیمتی معلومات ملی ہیں۔ میاں صاحب کے سامنے پوری تصویر بڑی واضح ہے۔کیا وہ اپنے رشتہ داروں کے خوف یا احترام میں مبتلا رہیں گے یا گڈ گورننس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے نااہل ساتھیوں سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ خاندانی سیاست میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی ۔دیکھئے میاں صاحب کس کا انتخاب کرتے ہیں!