Mar 11

Click here to View Printed Statement

نااُمید ہونے کے لئے ہزاروں دلائل موجود ہیں۔ لیکن پُرامید رہنے کے لئے وجوہات تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان بیم ورجا کے اس دوراھے پر آگیا ہے کہ اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم پھر سے یاسیت میں ڈوب جائیں یا اپنے دماغ کو جھٹکا دیں اور امید کا ننھا سا دیا روشن کرکے آگے بڑھیں۔ یہ کہا نہیں جاسکتا کہ کب کوئی دہشتگرد کسی ہدف پر پہنچ کر خود کو اڑا دے اور میرا مﺅقف بھی ہوا میں اڑ جائے۔ لیکن ذرا ٹھہریئے۔ کیا یہ بہت بڑی اُمید افزاءبات نہیں ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے اندر دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے عسکری اور سیاسی قوتوں نے کمال اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے۔سینکڑوں دہشت گرد پکڑے گئے ہزاروں انتہا پسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور سپہ سالار اعظم اور ان کی ٹیم نے جس طرح افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان ممالک کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کے خلاف قابل فخر پہلو ہے ۔مشیر داخلہ نے بڑے اعتماد سے کہا ہے کہ سول اور ملٹری قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ استحکام پاکستان کیخلاف خطرے کی گھنٹی ہمیشہ سول ملٹری تعلقات میں دراڑ ہی رہی ہے۔اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان واضح سمت میں بڑی یکسوئی کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے انتظامی اور امن وامان کے ذمہ دار اداروں ‘عسکری صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ میں بڑی تیزی کے ساتھ بہتری آئی ہے۔ اب عام آدمی پھر سے خوف کی چادر اتار کر احساس تحفظ سے سرشار ہورہا ہے۔

چنیوٹ کے نزدیک لوہے تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اگرچہ حزب اختلاف کے بعض رہنماﺅں نے مذاق اڑایا ہے ” کہ لوہار کو لوہا مل گیا“ اور چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے بیان دیا کہ چنیوٹ کے ذخائر نندی پور پاور پراجیکٹ کی طرح ایک ” خواب“ ہی ثابت ہوگا ۔لیکن ملک کے نامور سائنسدانوں نے ان ذخائر کی دریافت کو حقیقت پر مبنی قرار دیا ہے۔ ان ذخائر کو پاکستان کیلئے تائید غیبی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تھرکول سے اس سال کے آخر میں بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔
امید کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنے صوبے میں تعمیری کاموں اور سیاسی تطہیر کے منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ بات غیر اہم سی لگتی ہے لیکن اگر خیبرپختونخواہ کی حکومت واقعتاً ایک ارب درخت لگا دیتی ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس سال کے اندر ماحول پر کتنے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور صوبہ کی معاشی حالت میں کس قدر بہتری آئے گی۔ صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک فی الوقت دم توڑ چکی ہے۔ اور اس بات کو علیحدگی پسندوں کے حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ صوبہ کے وزیراعلیٰ نے اپنی سادہ طرز زندگی سے اپنے مخالفین کے منہ بند کردیئے ہیں اور وہاں کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی شہری حکومتوں نے اپنے حلقوں میں کام شروع کردیا ہے۔ ابھی کل کی بات تھی کہ پاکستان کے اس صوبہ کے دارالحکومت کوئٹہ میں پاکستانی پرچم لہرانا یا یوم پاکستان منانا ایک مہیب خواب تھا۔لیکن اب نہ صرف وہاں کھلے عام یوم پاکستان منایا جاتا ہے بلکہ وہاں کے ہزاروں نوجوان افواج پاکستان میں کمیشن بھی حاصل کرچکے ہیں اور وہ دفاع وطن میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
کراچی میں بھتہ خوروں اور دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنا ایک دیوانے کا خیال دکھائی دیتا تھا۔ لیکن تمام تر سیاسی مخالفتوں‘دھمکیوں اور دھماکوں کے باوجود رینجرز اپنا کام کر رہے ہیں اور حال ہی میں کراچی کے اندر اعلیٰ سطحی اجلاس اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ وہاں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہے گا ۔”بندوق صرف ریاست کے پاس ہوگی“ یہ وہ منزل ہے جسے بالآخر پاکستان نے حاصل کرنا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ مفاداتی گروہوں کی تھکاوٹ کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔زیادہ تر روپوش ہوچکے ہیں جو بچے ہیں وہ یا تو مارے جارہے ہیں یا ابھی انہوں نے نئے بہروپ دھار لئے ہیں۔ اور قانون نافذ کرنے والے ”چیتے اور عقاب“ہر بہروپیئے کا چہرہ بے نقاب کرنے پر تیار بیٹھے ہیں۔
پنجاب میں دو ماہ قبل تک سٹریٹ کرائم انتہاﺅں کو چھو رہاتھا ۔گلی محلے میں دن دیہاڑے بندوق کی نوک پر عورتوں کے زیور چھینے جاتے تھے‘نقدی لوٹ لی جاتی تھی اور اغواءبرائے تاوان کی وارداتیں بھی زوروں پر تھیں۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ ”سٹریٹ کرائم“ کے اس عذاب میں کمی آگئی ہے ۔پنجاب میں نو تعمیر شدہ قائداعظم سولر پارک نے کام شروع کردیا ہے۔ ملتان کا ایئرپورٹ بھی فعال ہوگیا ہے اور جنوبی پنجاب میں تعمیراتی اور روزگار پیدا کرنے والے منصوبے فائلوں سے نکل کر زمین پر شکل پانا شروع ہوگئے ہیں۔
ہمارے ایک وفاقی وزیر نے سعودی عرب کے حوالے سے ایک بے بنیاد بیان داغ دیا اور بعد میں اس بیان سے مکر گئے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے اس بیان کا حوالہ دے کر مخصوص لابی کے بعض کالم نویسوں ‘دانشوروں اور اینکروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ جانے بغیر کے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں معمولی سے تلخی بھی نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے لئے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے خطرناک ہوگی۔ یہ تو قدرت نے فیصلہ دیا اور آج سعودی عرب شاہ سلیمان کی کمان میں ہے ۔آج کی سعودی حکومت پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنا کہ کوئی پاکستانی اپنے ملک سے محبت کرسکتا ہے ۔سعودی بادشاہ کی طرف سے پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے ہاں بلانا اور بادشاہ کا ایئرپورٹ جا کر وزیراعظم پاکستان کا استقبال کرنا پاکستانیوں کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہونا چاہیے۔ میرے پاس ایسی معلومات ہیں جن کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ جلد ہی سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری ہوگی اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کے لئے ہمدردانہ ماحول پیدا ہوجائے گا۔عالمی امور میں ان دونوں ممالک کی باہمی مشاورت سے پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔
ایران کے ساتھ ”پائپ لائن “اور ”جند اللہ“ کے معاملات پر جو تلخیاں جنم پا رہی ہیں وہ بھی خوش اسلوبیوں میں تبدیل ہونے لگی ہیں اور جند اللہ کے سربراہ کی گرفتاری سے ایک بڑا ”بریک تھرو“ ہوا ہے ۔پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ ایٹمی مسئلہ پر ایران پر پابندیاں اسی معاملے کو بگاڑیں گی۔ یہ معاملہ بات چیت سے حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کے اس موقف کی تائید ہورہی ہے ۔سعودی عرب نے بھی اپنے مﺅقف میں نرمی پیدا کر لی ہے اور اُمید یہی ہے کہ اپریل کے آخری ہفتے میں امریکہ کا ایران سے مجوزہ معاہدہ طے پاجائے گا اور پاکستان پر ایک برادر ہمسایہ ملک کی طرف سے شکوک وشبہات کا سلسلہ رک جائے گا۔
افغانستان میںکئی دیہائیوں کے بعد پاکستان کے مﺅقف کو سمجھنے والی حکومت برسراقتدارآئی ہے۔آج کا افغانستان اگر پاکستان دوست نہیں تو دشمن بھی نہیں ہے۔ خصوصاً دہشتگردانہ کارروائیوں کے حوالے سے کم از کم افغان صدر پوری طرح یکسو ہیں۔گوکہ وہاں ایک متوازن حکومت بھی چل رہی ہے جو پاکستان کی سابقہ پالیسیوں کے باعث اپنی سابقہ پالیسی پر کاربند ہے لیکن آرمی چیف کا کابل بار بار جانا خیروبرکت کا سبب بنے گا۔افغان طالبان کے حوالے سے بڑے مضبوط اور مثبت اشارے مل رہے ہیں ۔اگر مذاکرات ہوجاتے ہیں اور طالبان بھی حکومت میں کسی طور شامل ہوجاتے ہیں تو پھر افغانستان داخلی طور پر مستحکم ملک بن جائے گا اور پاکستان کو مغرب کی طرف سے درپیش مشکلات میں کمی آجائے گی۔
بھارتی سرکار کا بچپنا ابھی برقرار ہے۔ وہ جہاں اسلحہ کی دوڑ میں سرپٹ دوڑے جارہی ہے وہیں پاکستان مخالف کارروائیوں کو بھی ہوا دے رہی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے ایک اعصابی حملہ ہے۔ اس حملے کا جواب بھی سفارتی سطح پر دیا جاسکتا ہے۔پاکستان نے اس محاذ پر کبھی بھی کوئی پیش رفت نہیں دکھائی۔ اور اب یہ آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں کہ جس ملک کا کوئی مستقل وزیر خارجہ ہی نہ ہو اس کی وزارت خارجہ کیا کارکردگی دکھائے گی۔ پاکستان کے لئے آنے والے سال دو سال بڑے ہی قیمتی ہیں۔داخلی طور پر استحکام رہے گا۔آئی ڈی پیز واپس جارہے ہیں۔افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع ہے۔مذہبی طبقات کے ساتھ موافقت کی فضاءپیدا کرنے کی سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں۔بجلی کی پیداوار‘ برآمدات میں اضافہ اور روزگار کی سکیمیں حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیں۔پاکستان کی خوش بختی ہے کہ چین اس ملک میں بہت بڑی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ بلوچستان کی ناعاقبت اندیش اسمبلی نے گوادر کاشغر روڈ کے معاملے میں بعض رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔لیکن میاں نوازشریف کی ایک صلاحیت کو دشمن بھی مانتے ہیں۔ وہ روٹھے ہوﺅں کو منانے کی خداداد صلاحیت سے مالا مال ہیں۔امید ہے کہ روٹ کے فروعی جھگڑے اس عظیم سرمایہ کاری کو روک نہیں پائےں گی۔
تُرکی پاکستان کا بلاشک وشبہ مخلص دوست ہے۔ تُرکی کے ترقیاتی تجربات سے پنجاب میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔بعض تجزیہ کار پاکستان اور تُرکی میں بڑھتی ہوئی قربتوں کیخلاف بھی شیطانی فلسفے سامنے لارہے ہیں۔اس وقت ترکوں پر شک کرنا پاکستان کے خلاف دشمنی کے مترادف ہوگا۔ حکومتی میڈیا منیجرز کی آزمائش ہے کہ وہ ایسے تمام میڈیائی حملہ آوروں سے ہوشیار رہیں اور انہیں ملاقات اور دلائل سے بے اثر کردیں۔
پاکستان کی قیمتی معدنیات کے بارے میں عالمی اداروں کی رپورٹس موجود ہیں۔پاکستان کے اسلحہ ساز ادارے کمال دکھا رہے ہیں۔ میزائل ٹیکنالوجی میں حیران کن ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ قومی خزانے میں ہدف کے مطابق ڈالرز موجود ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے ۔روپے کی قیمت مستحکم ہے اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی نے ملکی معیشت کو استحکام بخشا ہے ۔ عوامی ضرورت کی اشیاءکی قیمتوںمیں اگرچہ کوئی خاطر خواہ کمی تو نہیں ہوئی لیکن اضافہ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایل۔ این۔ جی کی فراہمی سے ایندھن کی کمی پر قابو پانے میں مدد کی امید ہے۔
غرض تلاش کرنے سے ایسی ہزاروں نشانیاں موجود ہیں جن سے اُمید کا چراغ روشن ہورہا ہے۔ 23مارچ کو فوجی پریڈ ہمارے اس چراغ کو مزید روشن کردے گی۔

written by deleted-LrSojmTM


Comments are closed.