Oct
27
|
Click here to View Printed Statment
دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں جس محاذ پر سب سے زیادہ سرگرمی دکھائے جانے کی ضرورت ہے وہ غربت کا محاذ ہے۔ فوجی آپریشنز وقت مقررہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن دہشتگردی کی وجوہات ختم کرنے کا عمل دیرپا اور مسلسل ہوتا ہے۔آج کا پاکستان کراچی سے خیبر تک دہشتگردوں کی کارروائیوں سے لرز رہا ہے۔ کہیں پنجابی طالبان کے نام سے یہ لوگ متحرک ہیں اور کہیں پشتو بولنے والے مجرم سامنے آرہے ہیں۔اب دہشتگردی کی وبا کسی ایک صوبے‘ طبقے یا گروہ تک محدد نہیں رہی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں جہاں غربت کے سائے گہرے ہوتے ہیں‘وہیں سے خودکش بمباروں کی بھرتی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کوئی بھی اختلاف انتہا پسندی کی شکل اس وقت اختیارکرتا ہے جب پیٹ کی بھوک انسان کو ہر طرف سے بے اختیار کردیتی ہے۔بعض بزدل بھوکے حالات سے مجبور ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ نوجوان خون بغاوت پر اتر آتا ہے۔ جونہی کوئی ماسٹر مائنڈ کسی غریب نوجوان کو خودکش بمبار بننے کے لئے مذہبی جواز فراہم کرتا ہے‘ پھر انتقام کی بدترین شکلیں سامنے آتی ہیں۔
یہ نہیں کہاجاسکتا کہ دہشتگردانہ سوچ کا واحد سبب بھوک اور غربت ہی ہے لیکن اب تک پاکستان میں جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں ان میں خود کو اڑانے والوں کا تعلق معاشرے کے غریب ترین گھرانوں سے ہوتا ہے۔چاہے یہ صوبہ سرحد کے مفلوک الحال نوجوان ہوں یا جنوبی پنجاب کے ناامید اور بے روزگار جتھے ہوں۔ جنت کا سہانا تصور بھی اسی وقت خود کو اڑا دینے میں آسودگی دیتا ہے جب دنیا ایک جہنم کے طور پر بھگتنا پڑتی ہے۔ہیپناٹائز کرنے والے اور اشتعال دلانے والے آخر کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو گمراہ کیوں نہیں کرپاتے۔
افسوس کہ عالمی امدادی اداروں نے پاکستان کی معاشی حالت سنوارنے‘ رزق اور روزگار کے اسباب پیدا کرنے کی طرف کبھی سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی۔ جس ملک کی چالیس فیصد آبادی خطہ غربت سے کہیں نیچے زندگی کو گھسیٹ رہی ہو وہاں کی حکومتوں سے مطالبہ کرنا کہ ”دہشتگردی کو نکیل ڈالو“ ایک یکطرفہ ڈھٹائی ہوگی۔امریکہ نے جس قدر افغانستان میں اپنی فوجوں پر ڈالر خرچ کئے ہیں ان کا دس فیصد بھی پاکستان میں غربت کے خاتمے کےلئے مل جاتا تو آج دہشتگرد تنظیموں کا وجود ہی ختم ہوجاتا۔
روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا کتنا مشکل ہوتا ہے ‘اس کا اندازہ کرنا ہوتو عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ممالک کے بڑے بڑے لوگوں کو چھ ہزار روپے میں ایک مہینہ گزارنے کا تجربہ کرنا چاہیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ چھ ہزار روپے میں زندہ رہنے سے مرجانے کو ترجیح دیں گے۔ اور عین ممکن ہے کہ اگر ورلڈ بینک کے صدر اس تجربے سے گزریں تو شائد وہ خود بھی خودکش بمبار ہی بننا پسند کریں۔
عالمی امدادی اداروں کو پاکستان کے حوالے سے یہ گلہ رہتا ہے کہ یہاں پیسے کے معاملے میں ایمانداری نہیں برتی جاتی۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی جیسی عوامی پارٹی کی طرف سے شروع کیا گیا۔نظیر انکم سپورٹ پروگرام ٹرانسپرنسی کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس تطہیر کی گواہی خود عالمی امدادی اداروں نے دی ہے۔ سو فیصد ٹرانسپیرنسی تو امریکہ میں بھی ممکن نہیں۔لیکن پی پی پی کی ایک جواں سال خاتون نے اس پروگرام کے آغاز سے لے کر آج تک رقم کی تقسیم‘ترسیل اور استعمال میں کمال درجہ کی انتظامی مہارت دکھائی اور کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے تحت ہر عمل کو شفاف بنایا ہے۔پی پی پی سے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن محترمہ فرزانہ راجہ کو ان کے پروگرام کے حوالے سے الگ دیکھا جانا چاہیے۔”وسیلہ حق“ پروگرام جاری ہے۔ لوگوں کو مانگت یا بھکاری بنانے کی بجائے خودانحصاری کی طرف راغب کرنے کا یہ ایک بہترین منصوبہ ہے۔تین لاکھ ایک خطیر رقم ہے۔ایک ایسے خاندان کے لئے جو چھوٹا سا کاروبار شروع کرکے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا چاہتا ہو‘ اس کے لئے تین لاکھ روپے بہت ہیں۔گزشتہ برس اس پروگرام کے آغاز میں چونتیس ارب روپے رکھے گئے۔آئندہ برس کے لئے پچھتر ارب روپے ہیں۔ بظاہر یہ رقم بہت ہے لیکن آبادی کا صرف پندرہ فیصد حصہ اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔آبادی کی شرح میںاضافہ اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ کے لحاظ سے یہ رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہلائے گی۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کل رقم ایک ارب ڈالر سے زیادہ نہیں ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کو شرم آنی چاہیے ۔ دھماکوں سے بدحال ہونے والے سترہ کروڑ آبادی کے ملک کو غربت ختم کرنے کے لئے ہر سال صرف ایک دو ارب ڈالرز! ۔ یہ امداد لوگوں کو مزید مایوسیوں کی طرف ہی دھکیلے گی۔بہرحال جو بھی میسر ہے اسے واقعتاً حق داروں تک پہنچانے کےلئے دردِ دل رکھنے والے افراد پر نیٹ ورک تربیت دینے چاہیں۔محترمہ فرزانہ راجہ کو بھی چاہیے کہ وہ گاہے بگاہے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے پروگرام کے بارے میں تجاویز حاصل کریں۔ شائد اس خاتون کی اس نیکی کے سبب ہی اس ملک کے مقتدر لوگوں کے گناہ بخشے جائیں۔