Jun
22
|
Click here to View Printed Statement
سنکیانگ میں دو کروڑ مسلمان آبادہیں ۔ گو ان کی زبان ترکی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن لسانی اور ثقافتی اعتبار سے وہ خود کو وسط ایشیائی ریاستوں کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔صدیوں سے سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے، جس کا اظہار سلک روٹ پر واقع کاشغرجیسے مصروف شہروں سے ہوتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ عرصے کے لئے الغیور آبادی نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا لیکن انیس سو اننچاس میں یہ علاقہ باقاعدہ طور پرکیمونسٹ چین کے مکمل کنٹرول میںلایا گیا ۔
رپورٹ شائع ہوئی ‘کہ چینی حکومت نے زیادہ تراس مسلم آبادی والے مغربی علاقے سنکیانگ میں سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کی طرف سے رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ساتھ ہی تمام ریستوران بھی کھلے رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ چینی حکومت جانتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں طلوع آفتاب سے پہلے سے لے کر غروب آفتاب تک روزہ رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں شامل ہے اور دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح چین میں بھی ایغور اور دیگر نسلوں کے مسلمان باشندے روزے رکھتے ہیں۔
لیکن چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی، جو باضابطہ طور پر ایک لادین پارٹی ہے، گزشتہ کئی برسوں سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کو جہاں تک ہو سکے، روزے رکھنے سے باز رکھا جائے۔ سنکیانگ چین کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پورے ملک میں نسلی اقلیت کی حیثیت رکھنے والی ایغور مسلم آبادی مقامی طور پر اکثریت میں ہے۔حیرت ہے کہ چین میں بدھ مت کے پیروکاروں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ چینی حکومت سنکیانگ میں جس طرح مسلمان باشندوں کے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے پر پابندیاں لگانے لگی ہے، اس کے نتیجے میں اس خطے میں نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ چین کے اسی علاقے میں حالیہ برسوں کے دوران مسلح جھڑپوں اور سکیورٹی دستوں کی مبینہ مسلم انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ہم پاکستانی چاہتے ہیں کہ چین پرامن رہے اور وہاں کی اقلیتوں میں ہم آہنگی موجود رہے۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت کو سنکیانگ میں دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے اور وہاں پرتشدد اور خونریز واقعات میں جو اضافہ ہو رہا ہے، اس کا سبب مذہبی انتہا پسندی ہے۔لیکن عبادات پر پابندی لگانے سے کیا مذہبی انتہا پسندی کم ہوسکے گی؟ان حکومتی دعووں کے برعکس چین کی طرف سے روزہ رکھنے پر پابندی کا یہ مقصد دکھائی دیتا ہے کہ ایغور مسلمانوں کو رمضان کے دوران ان کی مسلم ثقافتی پہچان سے دور رکھا جائے۔
بعض مسلمان رہنمائوں کا خیال ہے کہ مذہبی بنیادوں پر روزہ رکھنے پر پابندیاں عائد کرنے کی حکومتی پالیسی ایسی اشتعال انگیزی ہے، جس کا نتیجہ صرف عدم استحکام اور تنازعے کی صورت میں ہی نکلے گا۔
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ان پابندیوں کا دائرہ کار سنکیانگ میں اسکولوں کے مسلم بچوں تک بھی پھیلا دیا گیا ہے۔ سنکیانگ کا شہر ترباغاطائے چینی زبان میں تاچینگ کہلاتا ہے۔ اس شہر میں مقامی محکمہ تعلیم کی طرف سے تمام اسکولوں کو چند روز قبل حکم دیا گیا تھا کہ وہ طلبہ کو بتا دیں کہ نسلی اقلیتی طلبہ کو رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے، مساجد میں داخلے اور کسی قسم کی مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو چین کی وزارت ثقافت سے رابطہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ان گروہوں کا بھی صفایا کیا ہے جو سنکیانگ صوبہ میں انتہا پسندانہ کارروائیوں میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ پاکستان چین دوستی مذید تجارتی راہداری کے ذریعے بہت مضبوط ہوچُکی ہے لیکن اگر وہاں کے مسلمانوں کو مذہبی آزادیاں مل جائیں تو اہل چین اور اہل پاکستان قلبی طور پر ایک دوسرے کے مزید قریب ہوجائیں گے۔مسلمانوں پر روزہ فرض ہے’چینی حکام لاکھ لادین سہی لیکن مسلمانوں کو اپنے رب کے احکامات بجالانے کا موقع فراہم کریں ۔ یہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر ایک احسان ہوگا۔