Jul
02
|
Click here to View Printed Statement
حکمرانوںنے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اپنے طرز حکمرانی میں بہتری نہیں لائیں گے اور وقت گزاری اور ڈنگ پٹائو پالیسی پر ہی عمل پیرا رہیں گے۔ خبریں بنانے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نت نئے ادارے بن جاتے ہیں بلڈنگز کھڑی ہوجاتی ہیں’ تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے کا چکر چل پڑتا ہے لیکن مجال ہے جو کوئی مفید کام بھی ہورہا ہو۔ مجموعی طور پر پاکستان کے تقریباً تمام ملکی وسول اداروں کی یہی حالت ہے لیکن موسمی تغیریرات کی پیشگی اطلاعات بہم پہنچانے والے ادارے اپنے ناکارہ پن کے سبب کافی بدنام ہوچکے ہیں ۔
کراچی میں لُو لگنے سے بے قصور لوگوں کے جاں بحق ہونے کا سلسلہ کئی روز تک جاری رھا۔گرمی کی اس لہر نے پہلے ہندوستان میں ہزاروں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا اور ماہرین موسمیات کو علم ہونا چاہیے تھا کہ گرمی کی یہ لہر پاکستان کے ساحلی علاقوں کا بھی رُخ کرے گی۔پھر آخر ایسا کیوں نہ ہوسکا کہ پیشگی وارننگ جاری نہ کی جاسکی۔2010ء کا سیلاب بھی اچانک آیا تھا۔ ہمارے ادارے ایسی کوئی پشین گوئی نہ کرسکے۔ جہاں تک ہم اخبارات میں پڑتے ہیں کہ ”آج بارش کا امکان ہے ” تو یہ وہ معلومات ہیں جو ہر سمارٹ فون پرفراہم کردی جاتی ہیں۔آخر ہم نے اربوں روپے لگا کر بڑے بڑے موسمیاتی مراکز قائم کر رکھے ہیں ان کا کیا فائدہ ہے۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ”انفارمیشن شیئرنگ” کا کوئی فارمولہ بنا لیں اور سیلاب’ گرمی اور سردی جیسی قدرتی تباہیوں اور تبدیلیوں کی پیشگی اطلاعات فراہم کرسکیں۔ اگر اہل کراچی کو علم ہوتا کہ گرمی کی ناقابل برداشت لہر آنے والی ہے تو وہ یقینا اس سے حفاظت کا بندوبست بھی کر لیتے۔ اور سب سے بڑا فائدہ امدادی اداروں کو ہوتا۔ وہ اپنے وسائل کو یکجا کر لیتے یا از سر نو ترتیب دے لیتے ۔احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے ہی بہت سے افراد کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
پیشگی اطلاعات کا دوسرا بڑا فائدہ حکومت کو ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو متحرک کر دیتی ہے اور بوقت ضرورت ایمرجنسی نافذ کرکے ابتدائی طبی امداد شروع کی جاسکتی ہے۔ افسوس کہ کراچی کے بدقسمت لوگوں کو پیشگی وارننگ نہ دی جاسکی اور یوں کتنے گھر سوگ میں ڈوب گئے۔ کراچی المیے کا دوسرا پہلو براہ راست حکومتی کارکردگی ہے۔ اگرچہ موسمیات کا محکمہ اطلاع نہ دے سکا لیکن گرمی نے تو ہر کسی کو خود اپنی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ پھر ایسا کیو ںنہ ہوا کہ حکومت ایمرجنسی نافذ نہ کرسکی۔ کچھ بھی نہ ہوتا مفت چھتریاں ہی بانٹی جاسکتی تھیں۔ کراچی میں پانی فراہم کیا جاسکتا تھا۔ وقتی طور پر ادھر ادھر سے بجلی لے کر کراچی والوں کو ادھار دی جاسکتی تھی۔ بیس کروڑ بے بس انسان اپنے ہم وطنوں کو مرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ پانچ صوبائی حکومتیں تماشا کرتی رہیں’ سینکڑوں ایم این اے اور درجنوں وزرائ’ بڑے بڑے رفاعی ادارے اوریہ ایٹمی پاکستان ۔حکمران عوام کے مرنے کا انتظار کرتے رہے۔ سندھ کے حکمران تو راجہ دہر سے بھی سخت دل نکلے۔ انہوں نے رینجرز کی طرف سے جاری دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن کا انتقام بھی غریب لوگوں سے لیا۔ تصور کریں کہ اگر ایدھی ٹرسٹ بھی غیر فعال ہوتا تو کراچی میں لاشوں کا تعفن پھیل چکا ہوتا۔ پی پی پی والے اس لئے کراچی والوں سے سوتیلی ماں والا سلوک کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کو ووٹ نہیں دیتے۔ اور جو پارٹی ان غریب غرباء کے ووٹ لیتی ہے اس نے بھی اپنے تیس سالہ دور حکومت میں ان کی بہتری کے لئے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا۔
وزیراعظم پاکستان کراچی جا کر اشک شوئی کے سوا کیا کرسکتے ہیں ۔لیکن مرکزی حکومت کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ آئندہ سال کے لئے ابھی سے پیش بندی کرے۔ سال گذرتے دیر نہیں لگتی۔ گرمی نے پھر آنا ہے۔پھر لُو چلنی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ سیلاب کا موسم بھی آرہا ہے ۔ناکام اور ناکارہ اداروں کو فارغ کیجئے اور وارننگ ‘مدد اور بحالی کا کوئی تیز رفتار نظام وضع کیا جائے۔ ورنہ موسمی تبدیلیاں سب کچھ بدل ڈالیں گی۔