Jul
11
|
Click here to View Printed Statement
ہم اکثر فیس بک پر دیکھتے ہیں کہ دوست احباب اپنے نومولود بچے بچیوں کی تصاویر لگا دیتے ہیں۔ کمنٹس میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہر کوئی بچے کی صحت’درازی عمر اور اچھے نصیب کی دعا کر رہا ہوتا ہے۔عموماً یہ لکھا ہوتا ہے کہ ”خدا زندگی دے’خدا نصیب اچھے کرے”۔ اولاد بذات خود ایک انعام ہے۔ اللہ پاک نے اولاد کو میٹھے میوے سے تشبیہہ دی ہے۔ بیٹوں کے حوالے سے ہم بہت متفکر ّ رہتے ہیں۔ہمیں فکر ہوتی ہے کہ یہ بڑے ہو کر کامیاب انسان بنیں۔خوب دولت اور ناموری کمائیں۔ ایک بڑا حلقہ ابھی تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا ہے اور شائد غربت’ جہیز اور عدم تحفظ کے سبب بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹیوں کے معاملے میں حد سے زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ اور آئے دن کے سماجی حادثوں کو دیکھ کر بیٹی کے والدین ایک ہی دعا کرتے ہیں کہ ”یااللہ میری بچی کے نصیب اچھے ہوں”۔
جیسا اوپر عرض کی ہے کہ اولاد خود ایک انعام ہے۔ اگر کسی ماں باپ کے ہاں اولاد ہوئی ہے تو دراصل اس کے گھر پر اللہ پاک کا خصوصی کرم ہوا ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں یہ تو اللہ کی اپنی تقسیم ہے اور اس مسئلے میں الجھنا تخلیق کار کی صناعی اور حسن پیدائش پر اعتراض والی بات ہوگی۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے’
”ہم جس کو چاہتے ہیں بیٹے دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں بیٹیاں عطا کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں دونوں دیتے ہیں ”۔اب یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ اللہ کے اس انعام کو اچھا نصیب بناتے ہیں یا پھر فتنہ کے رُوپ میں سامنے لاتے ہیں۔
والدین کے پاس دو راستے ہیں۔پہلا راستہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کا راستہ ہے۔ یہ ایک کٹھن اور محنت طلب کام ہے۔ اس کام میں خالص نیت کیساتھ مفاد عامہ کا مقصد بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ آپ نے بچے کی تربیت اس لئے کرنی ہے تاکہ وہ آپ کا سہارا بنے’اپنی ذمہ داریاں نبھائے اور معاشرے کے لئے مفید شہری ثابت ہو۔ ایک فرد کی تربیت دراصل معاشرے پر بہت بڑا احسان ہے۔ والدین کے لئے تربیت یافتہ اولاد پھل دار اور خوشبودار درخت کی مانند ہے۔ وہ جُوں جُوں بڑی ہوتی جائے گی اس کی خوشبو اور مٹھاس اپنے اردگرد کے ماحول کو خوبصورت کرے گی۔ غیر تربیت یافتہ اولاد کانٹے دار جھاڑی کی مانند ہے۔ جو آدمی اس کے قریب سے گزرے گا وہ اس کا دامن تار تار کردے گی۔ اسے زخمی کرے گی اور اسے تکلیف پہنچائے گی۔حدیث نبویۖ ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ رحم دلی کا مظاہرہ کرو اور ان کی خوب تعلیم وتربیت کرو۔
تربیت کیا ہے۔ یہی وہ اہم پہلو ہے جس کی جانب توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں۔ اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت یہ ہے کہ ان کو موسم گرما کے بہترین اور مہنگے کپڑے خرید کر دیئے جائیں۔ ان کو خالص اور برانڈڈ خوراک مہیا کی جائے۔ ان کو مہنگے سکولوں میں پڑھایا جائے۔ان کے جوان ہونے سے پہلے ان کے لئے مال و اسباب کے انبار لگا دیئے جائیں۔ انہیں پڑھنے کے لئے یا ملازمت کے لئے بیرون ملک بھیج دیا جائے۔ یہ سب کچھ ضروری ہے ۔تربیت کا ایک مرحلہ ہے۔ بعض دینی حلقے تربیت کے اس پروگرام میں تھوڑا سا اضافہ کر لیتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ بچے کو حفظ قرآن کروانا ہے اور پھر چاہے بیکن ہائوس میں پڑھائیں ‘چاہیں اسے کسی فوجی سکول میں داخلہ دیں وہ بڑا ہو کر ضرور اچھا اور مفید شہری بن جائے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے نہیں۔ ہم اپنی خواہش کے مطابق اپنے بچوں کو مختلف سانچوں میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے حوالے سے بار بار سوچنا چاہیے کہ آخر ہم انہیں بطور شہری کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔
سڑک پر کوئی حادثہ پیش آگیا ہے۔ دو طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لاتعلق ہو کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہیں افسوس ہے کہ قیمتی جان ضائع ہوگئی۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جنہیں دکھ ہے لیکن وہ لاتعلق کھڑے نہیں ہیں بلکہ اس دکھ کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔زخمی کو سنبھالتے ہیں’ ٹریفک جام ہے تو اسے چلاتے ہیں۔ آپ بطور والدین کس گروہ کو پسند کریں گے۔ ظاہر ہے دوسرے گروہ کو جو دُکھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ خدانخواستہ اگر حادثے میں زخمی ہونے والے آپ ہوتے تو آپ یقیناً اس دوسرے گروہ کے ممنوں رہتے۔ یہی وہ معیار ہے جسے آپ نے اپنے بچوں کی تربیت کرتے وقت سامنے رکھنا ہے۔
پاکستان کو آج ایسی نسل کی ضرورت ہے جو معاشرے کے حادثوں کو دیکھ کر لاتعلق نہ رہے بلکہ حادثے کے متاثرین کا دکھ کم کرے۔ اس کی حیثیت چاہے انجینئر کی ہو’ ڈاکٹر کی ہو’ کاروباری شخصیت کی ہو’سیاستدان کی ہو ‘ آرمی آفیسر کی ہو۔ اس کی تربیت کا مرکزی نقطہ اچھا اور بہترین انسان بننا ہے۔ اور اچھے اور بہترین انسان کی تمام خوبیاں احادیث نبویۖ اور قرآنی تعلیمات میں واضح کردی گئی ہیں۔ اگر دینی معیارات پر تربیت پوری اترے گی تو نہ صرف والدین اور اولاد کے نصیب اچھے ہوں گے بلکہ ہمارا ملک کے بھی خوش نصیب کہلائے گا۔