Jul
15
|
Click here to View Printed Statement
وزیراعظم پاکستان کی طرف سے بیرونی اخبارات میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں میاں صاحب نے ملکی ترقی کے لئے تعلیم کو بنیاد قرار دیا ہے لیکن عملاً ان کی حکومت تعلیم کے لئے کیا کر رہی ہے اس کا اندازہ ممتاز محقق ا
ور ماہر سیاسیات جناب اکمل سومرو کے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے ہوتا ہے ۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں”محکمہ اسکولز کی بیوروکریسی نے وزیرِ اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ جو چالاکی کی اور جس طرح دروغ گوئی کے ساتھ کام لیا ہے وہ حیران کن ہے۔ جون میں پنجاب اسمبلی نے جو تعلیمی بجٹ منظور کیا ہے اس کی تفصیلات سے خود وزیرِ تعلیم بھی آشنا نہیں ہیں۔ اگروزیر تعلیم کی مرضی سے بجٹ بنا ہوتا یا وہ آگاہ ہوتے تو ذرا بیوروکریسی سے یہ سوال پوچھتے کہ پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کی مہم نئے سرکاری اسکولز کھولے بغیر کیسے کامیاب ہوگی؟پنجاب میں 40 لاکھ مزید بچوں کو اسکولوں میں لانے کا ہدف ہے لیکن اس کا ہدف محکمہ اسکولز نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاس رکھا ہی نہیں، بلکہ نجی اسکولوں کے حوالے کر دیا ہے۔ محکمہ اسکولز ایجوکیشن نے بذریعہ مراسلہ یہ واضح کیا ہے کہ لاہور سمیت صوبے کے 36 اضلاع میں کوئی بھی نیا سرکاری اسکول محکمے کے زیرِ انتظام نہیں کھولا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ تعلیم عام کرنے کے لیے مکمل طور پر نجی اسکولوں پر انحصار کیا جائے گا۔یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ پنجاب حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری اسکولوں کو ختم کر کے اس کے متبادل نجی اسکولوں کا جال بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے، اور اسی لیے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران صوبے میں 6 سالوں میں 8 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے، جبکہ اسی دوران نجی اسکولوں کو پھلنے پھولنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔آئین کے مطابق تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے، تو کیا ریاست کے یہ جمہوری نمائندے آئین کی غداری کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ پنجاب میں جتنے بھی تعلیمی منصوبے تشکیل پا رہے ہیں، ان کا ماسٹر مائنڈ برطانوی ماہرِ تعلیم سر مائیکل باربر ہے جسے حکومت ماہانہ 10 لاکھ روپے ادا کر رہی ہے، جبکہ وی وی آئی پی رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔حکومت کی متضاد پالیسیاں بھی ذرا دیکھ لیں؛ ایک طرف نجی اسکولوں کے نصاب اور فیسوں کو دائرہ کار میں لانے کے لیے اسمبلی میں اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بحث اور حکومتی اقدامات، تو دوسری جانب نجی اسکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فانڈیشن (پیف) کے ذریعے سالانہ 9 ارب روپے کا بجٹ تھما دیا گیا ہے”
مضمون نگارلکھتا ہے کہ’
پنجاب کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے جب بجٹ سے پہلے اپنی رپورٹ پیش کی تو بتایا گیا کہ پیف(پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن) کو 15-2014 کے بجٹ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن مزید مطالبے پر 2 ارب 80 کروڑ روپے اضافی دیے گئے۔ رواں تعلیمی سال کے لیے حکومت نے پیف کا بجٹ 10 ارب روپے تک کر دیا ہے۔ پیف کے طریقہ کار کے مطابق نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی فیسوں کی ادائیگی ایجوکیشن واچر اسکیم کے تحت کر دی جاتی ہے، اور جو نجی اسکول پیف کے ساتھ الحاق شدہ ہیں، ان کے بچوں کی فیسیں بھی پیف ادا کرتی ہے۔حکومت کی اس پالیسی سے نجی اسکولوں کے گروپس کو مزید مضبوط ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پیف کے ساتھ پانچ سال پہلے جس مالک نے ایک نجی اسکول کا الحاق کروایا، وہ اب دس دس سکولوں کے مالک ہیں۔ اب ان نجی اسکولوں کی طاقت کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ ہر سال پانچویں اور آٹھویں جماعت کے امتحانات پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت لیے جاتے ہیں، لیکن نجی اسکولوں کے صرف 10 فیصد طلبا ان سرکاری امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ پھر بھی حکومت اور بیوروکریسی ان سکولوں کے خلاف کارروائی کرنے سے کانپتی ہے کیونکہ بہت سارے اسکولوں میں سیاستدانوں بلکہ خود بیوروکریسی کے نمائندوں کی سرمایہ کاری ہے۔جمہور کے نمائندوں نے جمہور کے ساتھ ایسا ہاتھ کیا ہے کہ انہیں مسلم لیگ ن کے نمائندوں کو ووٹ دے کر منتخب کرنے کی سزا کئی نسلوں تک بھگتنی پڑے گی۔ محکمہ اسکولز پنجاب کی تعلیم دوستی کا اور ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ صوبے میں جن 10 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں، ان کا بجٹ 15 ارب روپے سے کم کر کے 8 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔پنجاب کے حکمران سر مائیکل باربر کے کہنے پر شعبہ تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک جس انداز میں تجربہ کاریاں کر رہے ہیں، اس سے صوبے میں اسکول سطح کی تعلیم میں دو واضح دھڑے بن گئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اب صرف کند ذہن بچے داخلہ لیتے ہیں یا پھر ریڑھی بان اور مزدوروں کے بچے۔سرکاری اسکولوں کی انتہائی قابل رحم حالت کی وجہ سے متوسط اور اشرافیہ گھرانوں کے بچے تو پرائیویٹ اسکولوں میں ہی داخل ہوتے ہیں، جہاں فیسیں ادا کرتے کرتے مڈل کلاس والدین کی جیبیں ہلکی ہوجاتی ہیں۔
میں مضمون نگار سے متفق ہوں کہ پسماندہ اضلاع میں دانش اسکولز کھول لینے سے محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوگا، بلکہ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں اضافہ، اور ان کے معیار کو نجی اسکولوں کے معیار کے برابر لا کر ہی ان علاقوں میں تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب حکومت کو پیف کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے بجائے مستقل طور پر سرکاری اسکولوں کو کھول کر ان کی براہ راست سرپرستی کرنی چاہیے۔ نجی اسکولوں کو دائرہ کار میں لا کر ان کے نصاب اور فیسوں کو سرکاری اسکولوں کے برابر کرنا چاہیے تاکہ ملک میں جو نئی نسل تیار ہو ان کے ذہن، اقدار، اور سوچ میں تنا نہ ہو بلکہ ان میں قومی ترقی کا ایک جیسا جذبہ پیدا ہوسکے۔