Jul
15
|
Click here to View Printed Statement
ایک اخبار نے لکھا ہے کہ روس میں پاک بھارت وزرء اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھارت کے موقف کو نمایاں کوریج ملی کیونکہ بھارتی میڈیا وہاں پر موجود تھا جب کہ پاکستانی وفد کے ہمراہ پاکستانی میڈیا کو نہیں لے جایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی سے پاکستان کے حق میں فضاء تبدیل ہوجاتی اور جو تصویریں اور فوٹیج بنی ہے اس کے مقابلے میں بھی چند تصاویر چل جاتیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے انکل نسیم انور بیگ (جنت نصیب) فرماتے تھے کہ معاشی آزادی کے بغیر ہر آزادی ادھوری رہتی ہے۔ پاکستان معاشی طور پر آزاد نہیں تو وہ خارجی سطح پر باعزت کیسے ہوسکتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستان کا انگ انگ قرضوں میں جکڑا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہر سال کا بجٹ بھی خسارے کا بجٹ ہوتا ہے اور ہمیں اپنے معاملات ریاست چلانے ‘تنخواہیں دینے اور وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بھی قرض لینا پرتا ہے۔ میرے دوست کالم نگار بیگ راج نے کہیں لکھا ہے کہ ‘خسارے کے بجٹ کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب خسارے میں ہیں’ گوگل اور سرکاری ویب سائٹس سے حاصل اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضہ کتنا ہے۔آپ اس حقیقت سے اندازہ لگا لیں کہ ہر پاکستانی اس وقت ستر ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ اس ستر ہزار کو بیس کروڑ سے ضرب دے لیں تو آپ کو اپنی آزادی کی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ اس قرض کے ادا ہونے کی بھی کوئی صورت نہیں۔ عالمی سود خور ہیں اور ہماری خستہ حالی ہے۔ اور یہ ساری خستہ حالیاں ہمارے خوشحال اور دولت مند حکمرانوں کی دین ہے۔ اب مذاکرات روس میں ہوں’ امریکہ میں ہوں’ چین میں ہوں یا جینوا مرکز ہو۔ایک بات طے ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ معاملات کرتے وقت اپنے سود خور قرض خواہوں کی خواہش کا احترام کرنا پڑے گا۔
مانا کہ ہمارے پاس بھارتی مداخلت کے ثبوت ہیں’ان کے پاس اگر بمبئی کا حادثہ ہے تو ہمارے پاس سمجھوتا ایکسپریس ہے۔ ایم کیو ایم کو ”را” کی فنڈنگ کے بھی ناقابل تردید ثبوت ہیں۔بلوچ علیحدگی پسندوں کی سفارتی امداد کے بھی شواہد ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں بیٹھ کر ایک پراکسی وار شروع کی اور ہمارے چالیس پچاس ہزار شہری اور بیس ہزار فوجی شہید ہوگئے۔اربوں ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ہمارے پاس یہ سب ثبوت موجود ہیں لیکن ہمیں مجبور کر دیا گیا ہے کہ ہم اس ظلم و زیادتی کے باوجود کھلم کھلا پاکستان دشمن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک اشارے پر اس سے ملاقات پر تیار ہوجائیں اور نہ صرف ملاقات کریں بلکہ سر جھکا کر اس کے حضور چل کر پہنچیں۔پھر ان کی دی ہوئی ڈکٹیشن کے عین مطابق ایک یکطرفہ علامیہ کو مشترکہ علامیہ تسلیم کریں۔ ایسا جوائنٹ ریزولیوشن جسے پاکستان کے خلاف ایف آئی آر کہا جانا چاہیے ہماری ذہنی پسماندگی اور نفسیاتی غلامی کا مستند ثبوت ہے۔ ہم نوازشریف پر برس رہے ہیں ۔ اس نوازشریف پر برس رہے ہیں جن کے بھارتی ساہوکاروں کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں اور ان کے خاندان کے بھارتی بزنس کمیونٹی کے ساتھ کاروباری تعلقات ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف سر اٹھا کر چلنا بھی چاہتے تو نہ چل سکتے تھے۔ یہ مذاکرات امریکہ اور چین کے دبائو پر کئے گئے۔ ہم سر سے پائوں تک ان دونوں طاقتوں کے مرہون منت ہوچکے ہیں۔ ایک طاقت ہمیں بھارت کی عسکری جارحیت سے بچاتی اور دوسری ہمیں معاشی طور پر سانس لینے کا موقع دے رہی ہے۔ مودی کا پلہ اس لئے بھاری نہیں رہا کہ وہاں ہمارے صحافی نہیں تھے یا مودی جب بولتا ہے تو سونے کے موتی جھڑتے ہیں یا وہ میاں نوازشریف سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکہ اور چین کے سامنے بول نہیں سکتے جو انہوں نے کہا’ جیسا کہا میاں نوازشریف نے پرفارم کردیا۔