Jul
28
|
Click here to View Printed Statement
دہشت گردی اب کسی ایک مُلک یا قوم کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی اشو بن چُکا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے عفریت سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ افواج پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ بڑی حد تک پورا ہوچکا ہے۔ فوجی نوعیت کی فتوحات قابل ذکر ہیں۔ضرب عضب کے تین اہداف مقرر کئے گئے تھے۔پہلا ہدف ان دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کے ٹھکانے ختم کرنے تھے جو اعلانیہ طور پر ریاست اور ملک کے خلاف برسرپیکار تھے۔ الحمد اللہ ہماری عسکری قوت نے ”ناقابل شکست ” سمجھے جانے والے ان گروہوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ بلوچستان کے علیحدگی پسند لشکر تھے یا اسلام کا نام استعمال کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو توڑنا چاہتے تھے دونوں قسم کے گروہ اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ جو چند بچے ہیں وہ بھی فرار کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ہمارے بہادر فوجی ان کی آخری پناہ گاہوں تک جاپہنچے ہیں۔دوسرا ہدف فرقہ وارانہ تنظیموں کی وارداتوں پر قابو پانا تھا۔مقام شکر ہے کہ ان کے وجود کو بھی نیست و نابود کردیا گیا ہے۔ اب ان کے اندر ہتھیار اٹھانے کی ہمت نہیں رہی اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو مضبوط گرفت میں لیا جاچُکا ہے۔ مُلک میں ٹارگٹ کلنک کے اکا دُکا واقعات تو ہوتے ہیں لیکن ایسی انتہا پسند تنظیموں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیاہے۔ تیسرا اور اہم ترین ہدف دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور معاون لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا اس حوالے سے کراچی میں جو آپریشن ہورہا ہے اس کے ذریعے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کو پکڑا جا چُکا ہے۔ چونکہ کرپشن انڈسٹری کے ذریعے ہی ان شدت پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کی جاتی تھی اس لئے مالی بدعنوانی کے ذرائع پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا ہے ۔ قوم کو یقین ہے کہ کراچی میں آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ہی ختم ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عسکری فتوحات دہشت گردانہ سوچ کو ختم کر پائیں گی۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جب تک عمومی سوچ تبدیل نہیں ہوتی اور انتہا پسند مذہبی مفکرین کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں ہوتا تب تک دہشت گردی کے مآخذ ختم نہیں ہوسکتے۔ طالبان فکر کے حامل گروہوں کو اس وقت بزور قوت دبادیا گیا ہے لیکن ان کے اندر کے دہشت گرد پر ہم فتح حاصل نہیں کرسکے۔ کہا جارہا ہے کہ بہت سے طالبان نے ”داعش” میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ داعش کی فکر ہرگز مقامی نہیں ہے۔یہ تنظیم کسی ردّعمل کے نتیجے میں سامنے نہیں آئی بلکہ اس کا ایک خاص فلسفہ ہے اور اس کے چاہنے والے امریکہ اور یورپ میں بکثرت موجود ہیںِ۔لیکن اس تنظیم نے پاکستان اور افغانستان جیسے غیر عرب ممالک میں بھی اپنے اثرات ظاہر کرنا شروع کردیئے ہیں۔ یہ ایک خالص نظریاتی جنگ ہے ۔”داعش” کی غیر انسانی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو تاریخ اسلام بلکہ انسانی تاریخ میں ایسی بہیمانہ سرگرمیوں کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان نے دہشت گردی کے اس ابھرتے ہوئے خطرے سے نپٹنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔یہ طالبان نہیں ہیں بلکہ طالبان سے دس گناہ خطرناک لوگ ہیں اور ان کے نزدیک ہم تمام پاکستانی واجب القتل ہیں۔
بوکو حرام کی کارروائیوں کی جھلک دیکھ کر انسان لرز اٹھتا ہے۔ اسی طرح داعش جس طرح قتل عام کرتی ہے اس سے بھی لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ عالمی نیٹ ورک کی حامل اس تنظیم کو پاکستانی نوجوانوں کے ذہن متاثر کرنے کے لئے کسی مدرسے یا مسجد کی ضرورت نہیں۔سوشل میڈیا ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یورپ سے لڑکیاں ان داعشیوں کے ساتھ نکاح کے لئے شام اور عراق کا خطرناک سفر طے کرتی ہیں۔ یورپ کی آزاد زندگی ان کو روک نہیں سکتی۔یہ وہ حالات ہیں جن کا فکری انداز میں مقابلہ کیا جانا ضروری ہے۔سچ یہ ہے کہ ان کے فکری توڑ کے لئے کوئی کام نہیں ہوا۔ ادارہ منہاج القرآن نے کچھ کام کیا لیکن ڈاکٹر طاہر القادری دھرنا سیاست میں ایسے اُلجھے کہ پورا سال ضائع ہوگیا۔ شیخ الاسلام نے چھ سو صفحات پر مشتمل ایک فتویٰ تحریر کیا تھا جس میں امن کا ایک مکمل نصاب بھی دیا گیا تھا۔ کاش کہ اس نصاب کو ہر یونیورسٹی کالج اور سکول میں متعارف کروایا جاتا۔
اسے پاکستانی قوم کی خوش قسمتی کہیے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمت کرکے دوبارہ سے اس کام کو آگے بڑھانے کا اعلان کردیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے قریبی رفیق کار اور شعلہ بیان مقرر جناب عُمر ریاض عباسی نے گزشتہ روز مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے 29جولائی کو ”دہشت گردی کے خلاف امن کے اسلامی نصاب” کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ قبلہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی قومی سوچ اور دینی فکر قابل غور ہوتی ہے۔ امن کے لئے اس نظریاتی جنگ میں ہر اس شخص کو ساتھ دینا چاہیے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن کا خواہاں ہے۔ مسلم امت کو بغیر کسی تیاری کے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جس کا انجام مسلمانوں کے لئے تباہی لا رہا ہے ۔امت مسلم کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے ڈاکٹر صاحب کے اس صالح عمل میں ہماری قلمی کاوشیں حاضر رہیں گی۔ کیونکہ قرآن پاک کا حکم ہے ”نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو”۔