Aug
05
|
Click here to View Printed Statement
اللہ پاک نے قرآن پاک میں پانی کو زندگی قرار دیا ہے۔افسوس کہ ہم بحیثیت مسلمان قرآن کی اس انتہائی اہم ہدایت اور روشنی سے اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کو منور کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہر سال لاکھوں کیوسک فٹ پانی سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔ بارش کا پانی جو محفوظ ہوجائے تو ہماری بنجر زمینیں بھی لہلاتے کھیتوں میں تبدیل ہوجائیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان ریاستی سطح پر ایسی کسی پالیسی پر عملدرآمد کی پابند نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی کی حفاظت کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا۔ زندگی کو خطرہ ہو تو ہم پوری طرح مستعد ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی اپنا بھائی بھی ہماری زندگی کے لئے خطرہ بنے تو بھائی سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹا جاتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ پانی نہ ہو تو ہم سب چند برسوں کے اندر موت کے منہ میں چلے جائیں۔ تصور کریں کہ پاکستان میں دو سال پانی کی فراہمی بند ہوجائے۔ نہ زمین سے میسر ہو’ نہ بارشیں ہوں نہ گلیشیئر پگھلیں۔تو اس ملک کے اندر جانور ہی نہیں انسان بھی چلتے پھرتے ڈھانچے بن جائیں۔ خوراک اُگے نہ حلق تر کرنے کے لئے آب رواں ملے۔ یہ محّلات جوں کے توں کھڑے رہیں گے اور ہم اس پیارے وطن کو چھوڑ کر پانی کی تلاش میں ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے۔ جدھر جائیں گے آگے سے سرحدیں بند ملیں گی اور ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ بُوند بُوند کو ترسنے والوں کی صرف ایک ہی پہچان ہوگی۔ بھوک’ بیماری اور موت!
یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتے ہیں۔ آتے رہیں گے۔ ہمیں ان سیلابوں سے صرف تباہی بچے گی۔ سیلابوں کے پانیوںکو نعمت میں تبدیل کرسکیں گے۔ کیونکہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ہمارے پاس مناسب بندوبست ہی نہیں ہے۔”ڈیم” انسانوں کی قدیم ترین ایجاد ہے۔ جب پانی زیادہ ہو تو ڈیم بھر لیں’ کم ہو تو استعمال کر لیں۔ کوئی ”راکٹ سائنس” نہیں ہے۔ عام آدمی بھی یہ بات سمجھتا ہے لیکن ہم پاکستانی یہ بات سمجھنا نہیں چاہتے۔
یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ ہم ڈیم کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ اس سے سستی بجلی پیدا ہوگی۔ بجلی تو ایک اضافی فائدہ ہے۔ اصل فائدہ تو دراصل پانی کی حفاظت ہے۔ یعنی زندگی کی حفاظت ہے۔بدقسمتی سے زندگی کی حفاظت کے ان بنیادی منصوبوں کو متنازعہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سندھی اور پختون سب سے زیادہ غافل ہوچکے ہیں۔ سیلاب ہر سال خیبرپختونخواہ کے شہروں اور دیہاتوں کو نقصان پہنچاتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مخالفت اسی صوبے کی پختون قیادتیںکرتی ہیں۔سندھ مدتوں ڈوبا رہتا ہے اور سندھی معیشت ہر سال تباہی سے دوچار ہوتی ہے۔ فصلیںتباہ اور مال مویشی بے جان ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اندرون سندھ سے کراچی کی طرف ہجرتیں ہوتی ہیں اور یوں بحران در بحران پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ مخالفت اسی صوبہ سے ہوتی ہے۔ سندھ کے قوم پرست لیڈر دریائے سندھ پر کسی بھی ڈیم کی تعمیر کے خلاف سراپا آتش زہر پا رہتے ہیں۔
مسئلہ کا حل کیا ہے؟ کیا ہم اسی طرح موت کی وادیوں کی طرف لڑھکتے رہیں گے۔ کیا ریاست اور ریاستی اداروں کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ زندگی پر حملہ آور ہونے والے ناسمجھ اور دشمن عناصر پر قابو پا کر ڈیموں کی جلد از جلد تعمیر شروع کروا دیں۔ کالاباغ ڈیم بنانے میں کیا رُکاوٹ ہے۔ چند لوگوں کی سیاست کے علاوہ آخر کونسی رُکاوٹ حائل ہے۔ کیا ہم آنے والے بچوں کی زندگیوں کو اس ناپاک سیاست کے سُپرد کرسکتے ہیں۔ آج خیبرپختونخواہ کی حکومت کالاباغ ڈیم کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ اسے آگے آنا چاہیے اور فوج سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اس قومی اہمیت کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کروائے۔ اپنوں کی غیرضروری ضد اور ہٹ دھرمی اگر موت بانٹنے لگے تو وقتی طور پر سختی بھی کرنی پڑتی ہے۔ ہر وقت ووٹ کی سیاست مسائل کا حل نہیں ہے کبھی کبھی آئندہ نسلوں کے لئے کچھ دیرپا اقدامات بھی اُٹھانے ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ پانی زندگی ہے اور زندگی کی حفاظت کے لئے ہر قدم اٹھانا جائز ہے۔ کالاباغ ڈیم’بھاشا ڈیم سمیت سینکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی مہم شروع ہوجانی چاہیے تاکہ آئندہ دس پندرہ برسوں کے اندر ہم سیلاب سے نمپٹ سکیں اور زندگی کو بھی محفوظ بنا سکیں۔