Aug
31
|
Click here to View Printed Statement
اٹھارویں آئینی ترمیم کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے توثیق کی سند عطا ہوگئی ہے ۔ یہ عدالتی فیصلہ ہے۔ لیکن اس ترمیم میں صوبوں کو جس قدر اختیارات دے دیئے گئے ہیں اس کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم کا بیڑا غرق ہو چُکا ہے۔ ہر صوبہ نے تاریخ’ اسلامیات اور اخلاقیات کے حوالے سے اپنی اپنی تاریخ’ اپنا اپنا اسلام اور اپنی اپنی تہذیب کو پھیلانا شروع کردیا ہے۔ صوبائیت کا جو جن بڑی مشکل سے قابو میں لایا گیا تھا وہ اس جمہوری ترمیم نے بوتل سے نکال دیا ہے۔ اس کا پہلا حملہ تو صوبہ خیبرپختونخواہ کے عوام پر ہوا ہے۔ ہزارہ بیلٹ اس نام سے قطعاً متفق نہیں ہے
انہیں الگ صوبہ کے مطالبہ سے کوئی قومی پارٹی بھی اب باز نہیں رکھ سکتی۔بلکہ صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ پارٹیاں ووٹ اینٹھنے کے لئے ہزارہ والوں کو ”اندر کھاتے” یقین دہانی کراتے ہیں کہ آج نہیں تو کل آپ کو آپ کا صوبہ ضرور مل جائے گا ۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے سرائیکی صوبہ کے مطالبہ کو تو اسمبلی قرارداد کے ذریعے ایک پارلیمانی جواز بھی فراہم کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ صوبہ پنجاب کے چیف منسٹر ملتان کے اندر صوبائی دفاتر کی شاخیں کھولنے پر تیزی سے عمل کر رہے ہیں لیکن سرائیکی وسیب کی تحریک اسی شدّومدّ کے ساتھ جاری ہے اور جوں ہی عام انتخابات کا ڈنکا بجے گا”سرائیکستان” کا نعرہ پوری شدت کے ساتھ لگے گا۔ بلوچستان میں چونکہ بلوچوں کی علیحدگی کی تحریک کو عسکری طور پر دبایا جارہا ہے اس لئے ابھی معاملہ دبا ہوا ہے۔لیکن جب پختون بیلٹ پر دہشت گردوں کے حملے تیز ہوئے تھے تو پختون اور بلوچ کی تفریق خطرناک حدوںکو چھونے لگی تھی۔ سندھ میں کراچی صوبہ کی تحریک تو انتہائی زوروں پر آچکی ہے ۔ زندہ الطاف نے دنیا بھر میں پاکستانی افواج کو بدنام کردیا ہے۔ اور ان کی زندگی کے بعد بھی صوبائیت بلکہ سقوط کی یہ تحریک دبتی دکھائی نہیں دیتی۔ عام پاکستانی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ صوبائی اختیارات دے کر پاکستانی ریاست اور اس فیڈریشن پر کونسا احسان کیا گیا ہے۔ فیڈریشن کے یونٹس کوئی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں۔ دہشت گردی ختم نہیں کرسکتے۔ مالی طور پر خود کفیل نہیں ہوسکتے۔ انہیں صرف سیاست کرنی ہے۔ صوبوں کے عوام اپنی حکومتوں سے مایوس ہو کر ہر مصیبت میں مرکز کی طرف دیکھتے ہیں۔صوبے بااختیار ہونے چاہیں لیکن کسی قیمت پر یہ اختیارات سونپے جائیں۔ جو جذبے کسی ملک کو جوڑے رکھتے ہیں ان کی حفاظت کون کرے گا۔رینجرزکے اختیارات پر واویلا ہوتا ہے کہ یہ بھی صوبائی معاملہ ہے۔ جب دہشت گردوں کے مالی معاونین کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تو اسے بھی صوبائی حقوق میں مداخلت قرار دیا جاتا ہے۔ جب کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ایف آئی اے کو اختیار نہیں۔ نیب کا پنجہ مڑوڑنے کی باتیں سامنے آجاتی ہیں ۔ محمد بن قاسم اہل پاکستان کے ہیرو تھے لیکن سندھی بچوں کو پڑھایا جارہا ہے کہ راجہ دہر ان کے ہیرو تھے۔ پھر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کا نظریاتی جواز کہاں سے لائیں گے۔ یہ کوئی عمومی حالات میں معرض وجود میں آنے والا مُلک نہیں ہے۔اس کے پیچھے خاص طرح کے عوامل کارفرما تھے۔ اس مُلک کے بانی اور بنانے والوں نے اسے ایک مُسلم قومی وحدّت کے تصّور پر بنایا تھا۔ صوبے’ زبانیں اور وسیب تو بہت مختلف تھے۔ بنگال کے رہنے والوں کی خوراک اور اطوار پنجاب کے رہنے والوں سے بالکل مختلف تھے۔ یوپی کے لوگ اپنی روایات رکھتے تھے۔پختونوں کا اپنا ایک جداگانہ کلچر تھا۔ بلوچوں کی شلواریں پنجابیوں کی دھوتیوں کی ضد تھی۔ سندھیوں کی زبان ہی بالکل مختلف تھی۔ اگر صوبہ پرستی ہی پاکستان کی بنیاد بنتی تو یہ مُلک کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کا سب سے بڑا سبب صوبہ پرستی ہی تھی۔ آج پھر صوبائی حقوق کی پُکار شروع ہوگئی ہے۔ کیا ہم واپس جارہے ہیں۔ خاکم بدہن’ صوبوں کے اختیارات ان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے ہیں ان کے اندر وطن سے بیزاری کے بیج بونے کے لئے نہیں۔
دس اکتوبر 1945ء کو کوئٹہ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائداعظم نے صاف فرمایاتھا’
”پاکستان میں ایک قوم ہوگی اور وہ ہوگی پاکستانی قوم’ نہ کوئی پٹھان ہوگا نہ پنجابی نہ بلوچی نہ سندھی نہ بنگالی۔پاکستان میں سب پاکستانی ہوں گے” اس خطاب کے دوران سب بلوچ رہنما موجود تھے’ سب نے تالیاں بجائی تھیں۔آج کس کے کہنے پر بندوقیں اُٹھائی ہیں۔آئیں صوبائی سیاست سے بالاتر ہو کرپھر سے قائد کے فرمان کو حرزِ جان بنالیں۔