Aug
31
|
Click here to View Printed Statement
ایک سال پہلے اور آج کے کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اِکا دُکا واقعات کے باوجود منی پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں بھی تھم چکی ہیں۔ اور بھتہ خوری کی لعنت سے بھی بڑی حد تک چھٹکارا مل چکا ہے۔ میں ہر ماہ کراچی آتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کاروباری حلقوں میں گھومتا ہوں۔لوگوں سے مفصل گفتگو ہوتی ہے۔ اب یہ نہیں ہوتا کہ ادھر چائے کا کپ ہاتھ میں ہو اور اُدھر سے خبر آئے کہ شٹر بند کردو’ جلوس آرہا ہے۔ یہ بھی اب خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی حادثہ یا قتل یا سیاسی اشو پر توڑ پھوڑ ہو یا سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگائی جارہی ہو۔ تاجر برادری کے اندر بھی اعتماد بحال ہورہا ہے۔ ان تمام مثبت پہلوئوں کے برعکس ایک انجانا سا خوف موجود ہے۔ کب تک یہاں رینجرزرہیں گے۔ اور کب مکمل طور پر امن قائم ہوسکے گا۔عوام کی شکایات بھی برقرار ہیں۔ بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے تشویش ہے۔ پانی کی فراہمی اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔گو طویل لوڈشیڈنگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔ لیکن لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ بے روزگاری کا عفریت بھی حاوی رہتا ہے۔ سنجیدہ حلقے ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ کو ناراض کرکے دراصل کراچی کے شہریوں کو شہری معمولات سے لاتعلق کردیا گیا ہے ۔ ہر کام رینجرز کے بس کی بات نہیں ہے۔شہر میں صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ہوچکا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں۔سوک اداروں کی ذمہ داریاں رینجرز کے کھاتے میں ڈالنے کی سازش ہورہی ہے۔ بعض باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ مخصوص ٹولہ چاہتا ہے کہ رینجرز کسی نہ کسی طور ناکام ہوجائیں اور ناکامیابیوں کا ملبہ آپریشن کے سر ڈال دیا جائے۔ سندھ حکومت میں اہلیت کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ ایف آئی اے یا نیب جس ادارے پر ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں کام ٹھپ ہوجاتا ہے۔ بیوروکریسی جان بوجھ کر سہل پسند ہوجاتی ہے۔ فائلیں حرکت نہیں کر پاتیں اور رشوت کے ریٹ بڑھ رہے ہیںِ۔متحدہ نے اس آپریشن کی حمایت کی تھی۔ اب بھی وہ بظاہر اس سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ لیکن جب اس آپریشن کی زد میں ایم کیو ایم سے وابستہ جرائم پیشہ عناصر آنا شروع ہوئے تو اسے جانبدارانہ قرار دے کر اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے گئے۔ اس غیر ضروری سیاسی حربے نے رینجرز کی قوت نافذہ پر بالواسطہ اثرات مرتب کئے ہیں۔ایم۔کیو۔ایم کے خیر خواہ حلقے یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ آپریشن کے نتیجے میں جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی متحدہ کی سیاست کے لئے نیک شگون ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر ایم۔کیو۔ایم اسمبلیوں میں واپس آتی ہے اور الطاف حسین صاحب آپریشن کی کھل کر حمایت کرتے ہیں تو متحدہ ایک صاف شفاف سیاسی قوت کے طور پر موجود رہے گی۔ پیپلزپارٹی اس حقیقت کو سمجھ گئی ہے اور بلاول بھٹو رینجرز کی شفارشات پر گندے انڈوں کو ٹوکری سے باہر پھینک رہے ہیں۔خدا جانے ایم کیو ایم ناراضگی کی انتہائی حدوں تک کیسے پہنچی۔اگر محض الزامات ہیں تو پھر گھبرانے اور شور مچانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
کراچی کا امن تمام سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے۔لیکن یہ محض امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جب تک عوام امن کے اس عمل میں شریک نہیں ہوتے یہ خواب ادھورا رہے گا۔ دھیرے دھیرے رینجرز کی موجودگی بھی روٹین کی کارروائی بن جائے گی۔جب لوگوں کو امن کے ثمرات نہیں ملیں گے تو قبرستان والا امن اپنی دلکشی کھو دے گا۔ بلدیاتی انتخابات ایک راستہ ہے۔ متحدہ کو کھلے دل کے ساتھ باقی پارٹیوں کو بھی آگے آنے کا موقع دینا چاہیے۔کراچی کو یک رنگی راس آئی نہ آئے گی۔ عوام صرف مہاجر ہی نہیں’ پنجابی’ پختون اور سندھی بھی عوام نہیں۔سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔