Sep
15
|
Click here to View Printed Statement
ڈاکٹر سعید الٰہی رجل العمل ہیں۔ عمل کے آدمی ہیں۔ وہ جو سوچتے ہیں کر گزرتے ہیں ۔اور چونکہ موروثی طور پر پاکستانیت سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کی سوچ پاکستان سے باہر جاتی نہیں ہے۔ ان سے جو ایک بار ملتا ہے دوبارہ ملنے کی آرزو پالتا رہتا ہےِ۔ بناوٹ سے کوسوں دور ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور وہ زندگی کے ہر لمحے میں ملک کے لئے کچھ کر نا چاہتے ہیں۔ منصوبے اور تصّورات ہاتھ باندھے حاضر رہتے ہیں۔ عام آدمی ایک وقت میں کسی ایک اشو کو سُلجھا رہا ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک نہیں کئی دماغ ہیں۔ وہ بیک وقت درجنوں محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ادھر مسئلہ پیدا ہوا اُدھر کھٹاکھٹ اس کے دو تین حل سامنے آگئے۔ان کے دفتر میں مغل دربار کا سا ماحول ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ نیا ہورہا ہوتا ہے ۔ بیگ راج جیسے کئی رتن قلم کاغذ لئے ہدایات لے رہے ہوتے ہیں ۔ سیاست پر تجزیہ چل رہا ہے ‘ کسی دوست کی سفارش ہورہی ہے’ ٹی وی پروگرام ریکارڈ ہور ہا ہے’ سیمینار کی تیاری ہورہی ہے’گھریلو معاملات بھی طے ہو رہے ہیں۔ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جب سے ہلال احمر کے چیئرمین بنے ہیں سٹاف کی دوڑیں لگی رہتی ہیں ۔ افسر شاہی معدوم ہوگئی ہے۔ کام ‘کام اور بس کام کا منظر دیکھنا ہو تو اس انتھک مسیحا کے ساتھ ہو لیجئے۔ آپ جسمانی اور دماغی طور پر تھک جائیں گے لیکن ڈاکٹر سعید الٰہی کو ہشاش بشاش پائیں گے۔ وہ کم خور ہیں۔ بہت کم سوتے ہیں۔ کام ہی ان کی ”انجوائے منٹ” ہے۔ہلال احمر فورم کا قیام ان کا تازہ قدم ہے۔ مصیبتوں میں گھرے اور تباہیوں سے متاثرہ لوگوں کے انسانی مسائل کو میڈیا’ متعلقہ اداروں اور حکومت تک پہنچانے کے لئے تشکیل دیئے گئے اس فورم کا پہلا اجلاس تھا۔ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ یہ ایک سیمینار تھا جس میں وزیرستان سے عارضی طور پر بے گھر ہوجانے والے لاکھوں پاکستانیوں کے حوالے سے درپیش مشکلات اور اقدامات پر بات کی گئی۔سرحدوں کے وفاقی وزیر محترم جنرل عبدالقادر بلوچ مہمان خصوصی تھے۔ مجھے اعزاز حاصل ہوا کہ تلاوت اور تشریح سے پروگرام کا آغاز کروں۔ انسانی خدمت کے حوالے سے آیات تلاوت کیں اور احادیث نبویۖ کی روشنی میں مختصر تشریح بھی پیش کی۔ جناب عبدالقادر بلوچ کا خطاب انتہائی پُرمغز تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیرستان اور خیبر ایجنسی سے بے گھر ہونے والے لوگ سب سے سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔ ان کی حب الوطنی پر شک کرنا لاکھوں مائوں ‘ بہنوں اور بچوں کی لازوال قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔ کون ہے جو اپنا گھر چھوڑنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ عارضی طور پر بے گھرنہیں ہوئے۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو دس دس سال سے اپنے گھر سے دُور کانٹوں بھری زندگی گذار رہے ہیں۔ عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ ان کی مہمان نوازی میں بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان کی واپسی باعزت طور پر ہورہی ہے۔ پھر سے گھر آباد کرنے کے لئے پورے وسائل مہیا کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ نئے ادارے بنانے کی بجائے ہلال احمر جیسے اداروں پر انحصار کرنا چاہے۔ یہ ایسا قومی ادارہ ہے جس پر باہر کے لوگ بھی اعتماد کرتے ہیں اور اس کے پاس بہترین انفراسٹرکچر بھی موجود ہےِ۔ وفاقی وزیر نے یہ بات کہہ کر سب کو حیران کردیا ہے کہ ہلال احمر پہلے ایک مُردہ گھوڑا تھا اور ڈاکٹر سعید الٰہی نے اس مُردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے۔ سیمینار میں ڈائریکٹر آپریشنز غلام محمد اعوان نے ہلال احمر کیطرف سے آئی ڈی پیز کے لئے مہیا کی گئی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بے گھر ہونے والے افراد کے لئے ایک مربوط نظام وضع کرنے پر زور دیا۔ سرجن جنرل میجر جنرل آصف نے بھی ہلال احمر کے کام کی تعریف کی۔ فاٹا اور گلگت بلتستان ہلال احمر کے چیئرمین بھی مقررین میں شامل تھے۔
یہ ایک مختصر سیمینار تھا لیکن ہر مقرر نے اپنے طے شدہ وقت میں اہم اور معلوماتی باتیں کیں۔حاضرین کے کمنٹس نے پروگرام کو مزید دلچسپ بنا دیا تھا۔ معروف کالم نگار اور اسلامی دانشور جناب اوریا مقبول جان نے کہا کہ یہاں بہت سے فورم بنتے ہیں۔کچھ باہر کی فنڈنگ سے چلتے ہیں اور بعض سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔ ہلال احمر فورم خالصتاً انسانی اور قومی اشو پر سنجیدہ سوچ بچار کے لئے قائم کیا گیا ہےِ۔ ہمیں اپنی اپنی عصبتیوں کو بالائے طاق رکھ کر قومی مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لئے بحث و مباحثے کو رواج دینا چاہیے۔ امریکہ اس لئے حکمران بنا ہوا ہے کہ وہاں ہزاروںتھنک ٹینک ہیں جو ریسرچ کی بنیاد پر کام کرتے اور اپنی حکومتوں کو متواتر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔فورم میں کینیڈین ریڈکراس کے صدر نے بھی حصہ لیا۔ انہوں نے ہلال احمر فورم کے قیام کو خوب سراہا۔
ہلال احمر کے رضاکاروں اور سٹاف ممبران نے بڑی دلجمی کے ساتھ اس سیمینار میں حصہ لیا۔ قومی میڈیا کی بھرپور نمائندگی بھی موجود تھی۔مشران کی نمائندگی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ تقریب کے اختتام پر وسیع لان میں چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ سیمینار محسنین پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا ایک اعادہ تھا اور ان کی قربانیوں کو سامنے لانے کا اہتمام بھی ۔