Sep
21
|
Click here to View Printed Statement
رینجرز کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بڑے بڑے ڈاکوئوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے اور اگر تفتیش اور تحقیق میں مار نہ کھا گئے تو عدالتوں کے ذریعے عبرتناک سزائوں کی نوید ہے۔ سفید پوش ڈاکوئوں کو پکڑنا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے آپ ناکہ نہیں لگا سکتے’ ریڈ نہیں کرسکتے’پولیس مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی رعب داب میں لپٹے اور عزت مآب کی قلغیاں سجائے ان قومی ڈاکوئوں کی تعداد بھی بہت ہے اور ان کے بنتے ٹوٹتے اتحاد وفاقی اداروں کو بعض اوقات بے بس کر دیتے ہیں۔ لیکن سپہ سالار اعظم جناب جنرل راحیل شریف کی کمٹمنٹ پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اس مشکل ترین مہم میں مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ہماری دلی دُعا ہے کہ وہ خوشامدیوں سے بچ بچا کر قومی بقاء کے اس صالح عمل کو منطقی انجام تک پہنچا سکیں اور وارداتیوں کی ریشہ دوانبوں سے محفوظ رہیں۔
میں معروف اور دیکھے بھالے ڈاکوئوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔اخبارات کے اندر کرائم کارنرز ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام اور پرامن شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹنے والے ڈاکو کس قدر نڈر اور سفاک ہیں۔ رات اڑھائی بجے کے لگ بھگ ٹی وی چینلز پر متواتر ٹکّر اور تازہ ترین خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔
سندھ میں دو ڈاکو مارے گئے۔ ساہیوال میں لوگوں نے ڈاکو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا’پنڈی کے بنی چوک میں پچاس لاکھ کا ڈاکہ پڑ گیا۔ میڈیا ٹائون میں صبح آٹھ بجے ایک گھر کو لوٹ لیا گیا۔ آئی ٹین فور میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے گھر سے پچپن لاکھ روپے لوٹ لئے گئے۔ نیلور میں ڈاکو ایک گھر میں گھس گئے’ اہل خانہ کو یرغمال بنایا اور زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے وغیرہ۔ ایسی درجنوں خبریں روزانہ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے موصول ہوتی ہیں لیکن یہ خبر کہیں پڑھنے کو نہیں ملتی کہ ضلعی انتظامیہ یا آئی جی پولیس نے کوئی ایسا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہو جس میں ان مسلح ڈاکوئوں کی گرفتاری کا کوئی منصوبہ شروع کیا گیا ہو۔
وفاقی دارالحکومت کے کئی تھانوں میںفون کی سہولت موجود نہیں۔ اگر رات کو اطلاع دینی ہو کہ ڈاکو واردات کے لئے کسی گلی میں گھس گئے ہیں تو رابطہ قائم کرتے کرتے مظلوم انسان لُٹ جاتا ہے۔ وہ ایک بے بس شکار کی طرح ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ شہری سوچتے رہتے ہیں کہ مال اور جان کے تحفظ کے لئے اب کس کو پکاریں۔ پولیس کی ٹیمیں پورے اسلام آباد میں پھیلی ہیں لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے ڈاکو چہل قدمی کرتے گزر جاتے ہیں۔
جڑواں شہروں میں رپورٹ ہونے والی وارداتوں میں سرقہ بالجبر’اسلحہ کی نوک پر مال و متاع سے محرومی اور بعض اوقات بے بسی کی موت جیسے واقعات شامل ہیں۔ڈاکوئوں کے لشکر اتر آئے ہیں۔ پولیس کو ایف آئی آر درج کرانے جائیں تو وہ ڈاکے کی جگہ لفظ چوری لکھ کر ٹال دیتے ہیں۔ پولیس میں بہت نیک لوگ ہیں۔لیکن عوام ان کی نیک نیتی کا کیا کریں۔ وہ تو لٹ رہے ہیں۔ بچے اور بچیاں خوف میں مبتلا ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہیں۔ اپنے گھر میں ۔ہاں جسے جنت کہا جاتا ہے ‘ وہی گھر ڈرانے لگتا ہے۔ کسی نے جہیز کے لئے کچھ بچا رکھا ہے’کسی نے بچے کی فیس جمع کرانی ہے۔ کسی نے بوڑھاپے کے لئے چند ہزار روپے جمع کر رکھے ہیں ۔گھر سے محفوظ جگہ کونسی ہوگی۔ لیکن افسوس کہ آج کل گھر ہی محفوظ نہیں رہے۔
شہری سوال کرتے ہیں کہ آخر تھانے والے ان منہ زور درندوں کو پکڑتے کیوں نہیں۔ وزیر داخلہ کہاں چُھپے بیٹھے ہیں۔ شہر اقتدار کو اس عذاب سے نجات کون دلائے گا۔ سائبر کرائم سیل موجود ہے’ جگہ جگہ ناکے لگے ہیں۔شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر کیمرے نصب کئے گئے ہیں پھر بھی عوام غیر محفوظ ہیں۔ ہر گھر کے سروے ہوتے ہیں۔کریہ داروں کا آڈٹ ہوچکا۔ آخر یہ ڈاکو کہاں سے آتے ہیں۔ کیا آسمان سے نازل ہورہے ہیں یا زمین سے پھوٹ رہے ہیں۔ ان پر قابو پانا کتنا مشکل ہے۔؟
عوام میں عدم تحفظ کا احساس پڑھتا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ڈاکو انتہائی تربیت یافتہ ہیں۔کوئی قفل’ کوئی دیوار’ کوئی گیٹ ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ یہ دستانہ پوش ہوتے ہیں۔نقاب اوڑھے ہوتے ہیں۔ جوگر پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اکثر پشتو بھی بولتے ہیں۔ ان کی دہشت سے لوگ راتوں کو جاگتے ہیں۔ یہ سب کب تک ہوگا۔ خدارا ہر کام فوج پر مت ڈالو۔ گلی محلے اور گھر میں قیامت ڈھانے والے ان ڈاکوئوں سے نجات دلائو تاکہ عوام آپ کو اپنا نجات دہندہ کہہ سکے۔ اور ڈاکوئوں کو بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ وہ ظلم سے باز آجائیں ۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔
”اے ایمان والو ‘ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے مت کھائو ”
فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ’
”تمہارا خون’تمہار امال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں کہ جس طرح آج کا دن ‘یہ مہینہ اور اس شہر (مکہ)کی حرمت قائم ہے”۔(خطبہ حجة الوداع)۔