Sep
17
|
Click here to View Printed Statement
بھاری فیسیں وصول کرنے اور آئے روز ان فیسوں میں اضافہ کرتے جانے والے سکولوں کے خلاف بچوں کے والدین نے آجکل آہ و بکا شروع کر رکھی ہے۔ حکومت نے ان ”مجبور” والدین کی اشک شوئی کے لئے کراچی’ لاہور اور اسلام آباد میں واقع ان مادر پدر آزاد سکولوں کی انتظامیہ سے مذاکرات کے نام پر چائے پانی کا اہتمام کیا ہے اور خوشخبری دی ہے کہ فیسوں میں کیا گیااچانک اضافہ واپس لے لیا جائے گا۔
میں خود بھی ایک نظریاتی سکول چلاتا ہوں اور جانتا ہوں کہ پانچ سو سے آٹھ سو روپے فیس لے کر سکول کو بہترین طریقے سے چلایا جاسکتا ہے۔میں جب پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں کے بارے میں پڑھتا اور سنتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سکولوں کی مختلف کیٹگیریز ہیںِ۔ایسے سکول بھی موجود ہیں جو اس غریب مُلک میں ڈالر کرنسی میں فیس وصول کرتے ہیں۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ سرکاری سکولوں میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔ بھاری بھر کم تنخواہوں کے باوجود اساتذہ پڑھانے کے علاوہ ہر کام کرتے ہیں ۔فکر مند والدین اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے مجبوراً پرائیویٹ سکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں ۔لیکن دس دس بیس بیس ہزار ماہانہ فیس ادا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے والدین کی تشویش ناقابل فہم ہے۔
یہ امراء کا ایک طبقہ ہے جو تعلیم سے زیادہ اسٹیٹس کے پیچھے بھاگتا ہےِ۔ وی آئی پی سکولوں کے مالکان ایسے نودولتیئے والدین کے نفسیاتی پرابلم کو کیش کرواتے ہیں۔ ”جتنی فیس زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی ان کے اندر کے ”سٹیٹس” کو تسکین ملتی ہے”۔ ایک لیڈی ٹیچر نے بتایا کہ دراصل سکولوں کے نام پر کلب قائم ہیں جہاں والدین تعلیم کے پیسے نہیں دیتے بلکہ کلب کی ممبر شپ فیس ادا کرتے ہیں ۔ امیر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ امراء کے بچوں کے ساتھ ہی پروان چڑھے۔ زیادہ تر اوورسیز پاکستانی بھاری فیسیں ادا کرنے اور اس فیس کو بیان کرنے میں ایک لذت محسوس کرتے ہیں۔
پرائیویٹ سکولز اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار نے ٹیوشن سنٹر سے آغاز کیا۔ سخت محنت کے ساتھ بچوں کو پڑھایا اور جنڈ ضلع اٹک جیسے علاقے میں میرٹ کے صحت مند مقابلے کو فروغ دیا۔ والدین کے اصرار پر ایک چھوٹا سا سکول شروع کیا اور اب ان کے اس تعلیمی ادارے میں چار سو کے لگ بھگ طلباء و طالبات بہترین تعلیمی ماحول میں انتہائی معقول فیس میںشاندار رزلٹ دے رہے ہیں۔ ملک صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ تعلیم کے فروغ میں ان کی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظریہ پاکستان سنٹر(رجسٹرڈ) کی طرف سے انہیں قائداعظم ایوارڈ دیا۔ ملک ابرار پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ انہوں نے فیسوں کے ایشو پر بات چیت کے دوران بتایا’
”پاکستان میں دو لاکھ سے زائد پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔ پچانوے فیصد ایسے ادارے ہیں جن کی فیسیں ہزار دو ہزار سے زیادہ نہیں۔یہ صرف پانچ فیصد ادارے ہیں جو تعلیم کے نام پر دراصل ”اسٹیٹس” بیچتے ہیں۔ یہاں معاملہ صرف فیسوںکا نہیں جو تعلیم دی جارہی ہے وہ ایک الگ المیہ ہے۔ ان سکولوں میں”سموکنگ کارنر” موجود ہیں۔ ٹیبلٹس اور انٹرنیٹ کی سہولت دی گئی ہے۔ یہاںاُستاد کا احترام ایک فضول سا بندھن ہے۔اکثر بچے یہاں بننے نہیں بگڑتے آتے ہیں۔پاکستان اور اسلام سے بیزاری کے درس دیئے جاتے ہیں۔ جن خاندانوں نے یہ کاروبار شروع کر رکھا ہے وہ حکمران طبقہ کے چہیتے ہیں۔ ان کا کچھ بگاڑا نہیں جاسکتا”۔
پاکستان میں تعلیم کے نام پر دھندا چل رہا ہے۔ہر حکومت نے بڑے سہانے خواب دکھائے ہیں۔ منصوبہ سازی کے وفاقی وزیرجناب احسن اقبال خوشخبریاں سناتے ہیں کہ تعلیم کے بجٹ کو چار فیصد تک بڑھایا جائے گا لیکن عملاً کچھ بھی نہیں ہوپارہا۔”دانش” سکولوں کا قیام دراصل حقیقت سے فرار کا ثبوت ہے۔ چند دانش سکول بن جانے سے ستر فیصد سرکاری سکولوں کی حالت سنور نہیں سکتی۔
ہمارا تعلیمی نظام پوری رفتار کے ساتھ مختلف طبقات پیدا کر رہا ہے۔ والدین اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ عام سے سکول میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھنے والے بھی زندگی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ جس مُلک میں غریبوں اور امیروں کے الگ الگ سکول ہوں گے اس ملک میں ضرب عضب کے نتائج دیرپا نہیں ہوسکتے۔ اگر جسموں کو خوراک ایک جیسی نہیں دے سکتے تو کم از کم ذہنوں کو ہی ایک جیسی خوراک دے دیں۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اور ایک خوبصورت حدیث پڑھئے’
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہوں۔
میں اساتذہ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تعلیم دیتے وقت اس حدیث کو سامنے رکھیں۔