May 10

Click here to View Printed Statement

پاکستانی معاشرہ مالی اعتبار سے دو طبقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیاہے ۔غربت کی شرح میں مسلسل اضافے سے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے۔ جہاں دولت کا ارتکاز ہوتا ہے وہیں اختیار اور اقتدار کا بھی بسیرا ہوتا ہے۔ لہٰذا آج کا پاکستان عملاً امیر اور غریب کی نہ ختم ہونے والی خلیج کے دو کناروں پر کھڑا ہے اور مڈل کلاس تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے ۔ امیر اور غریب کاٹکراﺅ تو فطری سی بات ہوتی ہے یہ صرف مڈل کلاس ہوتی ہے جو بفرزون کاکام کرتی ہے اور یوں ٹکراﺅ کی نوبت نہیں آتی۔ تازہ ترین مالیاتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں خطہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کا 55فیصد ہے۔ اگرچہ ان شماریات کو گھٹا کر بیان کیا جاتا ہے لیکن اگر اس تعداد کو بھی صحیح مان لیاجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سترہ کروڑ پاکستانیوں میں سے کم از کم دس کروڑپاکستانی بھوکے ہیں۔ افلاس نے ان کے گھروں پر مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے حالات سدھرنے کے کوئی امید ہی نہیں ہے۔ ان دس کروڑ پاکستانیوں میں سے بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں کو اگر نکال دیا جائے تو چار پانچ کروڑ وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں سولہ سے چالیس برس کے درمیان ہیں اور وہ مایوسی کے گھپ اندھیروں میں اسی وطن کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ وہ بے روزگار ہیں‘ستائے ہوئے ہیں‘ بے اطمینانی انہیں کچوکے لگاتی ہے‘ ان کے پاس کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ یاسیت کا شکار اتنی بڑی تعداد کے پاس جب کرنے کو کچھ نہیں ہوتا تو پھرخودکشیوں اور خودکش حملوں کا کلچر فروغ پاتا ہے۔
کمیونزم نے اسی تفریق کی بنیاد پر ہی فروغ پایا تھا اور دنیا بھر کے غریبوں کے دلوں میں امراءکے خلاف ایک آگ بھڑکا دی تھی۔ چونکہ مقدر اور تقدیر پر یقین رکھنے والے دولت اور تنگدستی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اس لئے مسلمان ممالک کے اندر اشتراکیت کا نظریہ جڑ نہیں پکڑ پاتا۔حالانکہ اسلام کے معاشی نظام کی اصل روح ارتکاز دولت کو روکنا ہی ہے۔ لیکن اس کام کے لئے نظام زکوٰة کی ترویج بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہے اور یہ نظام اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ سودی نظام معیشت جیسی انسان خوربیماری کے ہوتے ہوئے دولت کے ارتکاز کو روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں کمیونسٹ تحریک کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ اب تو ایسی کسی تحریک کے نشانات تک بھی مٹ چکے ہیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے تصور سے آشنائی کے سبب پاکستانی بحیثیت قوم نظریہ اشتراکیت کو رد کرچکے ہیں ۔کم و بیش ہر پاکستانی یہ یقین رکھتا ہے کہ اگر ملک میں اسلامی نظام حیات مکمل طور پر نافذ ہوجائے تو دولت چند گھرانوں سے نکل کر حیات اجتماعی کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سوویت یونین کے انتشار اور امریکہ کی مسلمان دشمنی کے باعث ہمارا نوجوان طبقہ تیزی سے اسلام کی طرف راغب ہوا ہے۔
افسوس یہ کہ اسلام کے لئے بے روزگار نوجوانوں کے اندر جو چاہت پیدا ہوئی اس کو کوئی پڑھی لکھی اسلامی تحریک سنبھال نہ سکی اور پھر امریکی جارحیت کے خلاف جہا دکا نعرہ لگانے والی جہادی اور عسکری تحریکوںنے ان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر لیا ۔ آج جب ملک کے اندر ”طالبان“ کے حق میں رائے عامہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو اس کا سبب مدرسوں میں پڑھنے ولے اور جہادی گروپوں میں شامل مایوس نوجوان پیش پیش ہیں جن کے پاس کھونے کے لئے صرف جان ہے اور پانے کے لئے پورا پاکستان پڑاہے۔ طبقہ اشرافیہ کیخلاف غریبوں کی جنگ کو ایک جواز مل گیاہے اور تمام تر ریاستی کوششوں کے باوجود ”طالبان“ اور ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
جو لوگ ”طالبان“ سے مذاکرات کرنے جاتے ہیں ان کے اپنی پہچان دولت‘ اختیار‘ اقتدار ا ور امریکہ نوازی کے علاوہ کچھ نہیں۔لہٰذا ان مذاکراتی وفود سے متاثر ہونے کی بجائے ہتھیار بند غریب اور جذباتی نوجوان مزید چڑتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ آج اگر طالبان کے رہنما چاہیں بھی کہ ان جہادی نوجوانوں کو ٹھنڈا کریں تو ان کی اپنی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
چونکہ پاکستان کے سیاسی اور انتظامی مزاج میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آرہی۔ عدالتیں اسی طرح جمود کا شکار ہیں اور انصاف پر مبنی تیز رفتار فیصلے سنانے میں ناکام ہیں۔ پولیس اسی طرح جبر اور جوتے کا استعمال کر رہی ہیں۔ امیروں کی امارت میں اسی طرح اضافہ ہورہا ہے اس لئے جب کوئی بے روزگار ”طالبان“ کسی بڑے بنگلے‘ کسی تھانے پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے اور وہ خود کو ”فاتح“ سمجھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے چند روز قبل واضح کردیا تھا کہ اگر عدالتی نظام میں شفافیت نہ لائی جاسکی اور فوری انصاف فراہم نہ کیا جاسکا تو یہ پورا نظام چند روز میں تحلیل ہوجائے گا۔ ظلم کرنے والے ظالمان ہوتے ہیں اور پاکستان کا ہر انتظامی اور معاشی ادارہ ظلم ہی کرتا ہے اس لئے جب تک یہ ”ظالمان“ موجود ہیں پاکستان کے کروڑوں بے روزگار اور امریکہ بیزار نوجوان ”طالبان“ بنتے رہیں گے!۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply