Oct
19
|
Click here to View Printed Statement
جمہوریت جُوں جُوں مستحکم ہورہی ہے سرمائے کا عمل دخل بھی بڑھتا جارہا ہے ۔لاہور کے حلقہ 122 میں حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ دولت کو پانی کی طرح بہایا گیا ہے ۔ اگر ایک طرف پیسے کے ساتھ ساتھ اختیار اور اقتدار کا بے دریغ استعمال ہوا تو دوسری طرف حکومتوں کے اثرورسوخ کے مقابلہ کے لئے بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانے میں اربوں روپے خرچ ہوگئے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے خرچ کئے گئے وسائل پر الگ بجٹ لگا۔ فوج’ پولیس اور دیگر سرکاری عملہ بھی پیسے کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ اگر تمام اخراجات کو جمع کر لیا جائے تو ایک ووٹر پر ہزاروں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جمہوریت اس قدر مہنگی ہوگی اس کا تصور تو شائد اس نظام کے بانیوں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ ابھی بلدیاتی انتخابات کا چل چلائو ہے اور ایک ایک اُمیدوار لاکھوں’ کروڑوں کے اخراجات کا تخمینہ لگائے بیٹھا ہے۔
الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق اپنی جگہ لیکن اس ضابطہ اخلاق کی صرف کاغذی حیثیت بچ گئی ہے ۔ یہ نہیں کہ الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اطلاعات نہیں دی گئیں۔ بروقت اطلاعات فراہم ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن بڑی خاموشی اور ڈھٹائی سے سرمائے کا کھیل ہوتا دیکھتا رہا۔ بالکل ایک بے حس یا بے بس تماشبین کی طرح!
پیارے پاکستان میں جمہوریت کو ایمان کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اگر اس نظام کے خلاف کوئی بات کرے تو اسے فوراً اسٹیبلشمنٹ کا ”پرزہ” قرار دے کر سماج دُشمن ثابت کردیا جاتا ہے۔ تمام شہری برابر ہیں۔ یہ ہمارا آئین کہتا ہے لیکن جمہوریت کے فیوض و برکات سے مستفیدہونے والے تمام شہری برابر نہیں ہیں۔ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے اتنا ہی وہ جمہوریت سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس جمہوری نظام نے کسی سفید پوش یا غریب شخص کو مستند اقتدار تک پہنچایا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہے ۔ لیکن عملاً معاملہ بالکل الٹ ہے۔ پاکستان میں جب بھی انتخابات کی چھلنی لگتی ہے تو سماجی طور پر بدکردار ‘مالی طور پر کرپٹ اور سیاسی طور پر نااہل لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ سینٹ کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ سینیٹر بننے کے لئے کھلے عام بولیاں لگتی ہیں۔تناسب کے اعتبار سے اسمبلیوں کے اندر اہلیت کی بنیاد پر آنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جب کالا دھن خرچ کرکے انتخابات جیتنا ہیں تو پھر ان اسمبلیوں سے حاصل کیا ہوگا۔ اربوں کھربوں کی کرپشن’ملک اور عوام گروی رکھ کر غیر ملکی قرضے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے کشکول پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔
انتخابات میں برتری کا فلسفہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے۔ جیت تو ایک ووٹ سے بھی جیت کہلائے گی۔ کسی کو کتنے ووٹوں سے جیت ملی ایک بے معنی سا سوال ہے۔ ایاز صادق ایک ووٹ سے جیتیں یا دس ہزار ووٹوں سے۔ان کی قومی اسمبلی کی نشست پر فرق نہیں پڑتا۔ جہاں گدھے گھوڑے کا ووٹ برابر ہے وہاں جیت گدھے کے ووٹ سے ہو یا گھوڑے کے ووٹ سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
پُرامن انتقال اقتدار کے لئے جمہوری نظام کو آخری حل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے باہمی مشاورت کی بنیادی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن مشاورت کا کوئی طریقہ کار طے نہیں ہو سکا۔ البتہ اہل مشاورت کی اہلیت کے لئے امین اور صادق ہونے کی شرط عائد کی ہے۔آئین میں شق نمبر 62 اور 63 لاگو کرنے پر ثابت ہوا کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے اکثر نمائندگان خائن ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ لہٰذا اس شق سے بھی جان چھڑا لی گئی۔ اب تو سارے راستے کھلے ہیں۔ ہر انتخاب پر اخراجات کی حد بڑھتی جائے گی اور عام آدمی بھی اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ گنتی جب جمہوریت کی روح ہے تو پھر اہلیت کا مقام صفر ہے’ اقبال نے بہت پہلے یہ نکتہ سمجھا دیا تھا۔
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے