Oct
15
|
Click here to View Printed Statement
شفیق اور ملنسار’معاملہ فہم اور زیرک’ا ہلیت اور ایمانداری چہرے سے عیاں ۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کے ماہر۔مخاطب پر بوجھ نہ اُدھورے جُملے۔ بناوٹ اور تصّنع سے دُور۔پہلی ملاقات میں ہی شخصیت کا اسیر ہوجانے کو جی چاہتا ہے۔ میں شخصیت پرستی سے کوسوں دُور رہنے والا آدمی ہوں۔ احباب جانتے ہیں کہ میرا قلم ریاکاری کی بیماری سے ہنوز بچا ہوا ہے۔ شجاعت علی بیگ سے جو لوگ ملے ہیں وہ میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ بیگ صاحب نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اس شعبے کو معزز کردیا۔ پاکستان کے سینئر ترین بینکار ہیں۔ سندھ حکومت میں وزارت ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے وزیر رہے۔ انہوں نے پورے سندھ کے تعلیمی اداروں کا دورہ کیا’ اور تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ایک بڑی ہی معلوماتی اور کارآمد رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ گورنر سندھ اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو بھجوائی گئی۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد تو نہ ہوسکا لیکن یہ حکومتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ دو برس قبل جب مملکت پاکستان کی طرف سے نمایاں شخصیات کو تمغات سے نوازنے کا مرحلہ آیا تو ایجوکیشن منسٹری نے اس رپورٹ کا حوالہ دیا۔ رپورٹ از سر نو دیکھی گئی اور اسے اس قابل سمجھا گیا کہ اس کے خالق کو ستارہ امتیاز سے نوازا جائے۔
فیصلہ ہوگیا تو مزید کیٹیگری بھی سامنے آگئی۔ معلوم ہوا کہ صرف سندھ ہی نہیں پورے پاکستان میں کھیل کے فروغ کے لئے بھرپور کام کیا ہے۔ یہی نہیں ملک میں بینکنگ سیکٹر کو ترقی دینے میں بھی بیگ صاحب کا اہم کردار ہے۔
میری ملاقات ایک مشترکہ صحافی دوست معروف کالم نگار اور سفرنامہ نویس جناب سید وجاہت علی کے ذریعے ہوئی۔ بیگ صاحب کے ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع گھر میں بیٹھے تھے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں بڑی بڑی سیاسی اور سماجی شخصیات آتی رہی ہیں۔ محترمہ خوش بخت شجاعت جیسی عظیم خاتون جس گھر کی مالکہ ہوں وہاں علم و فن کی کہکشائیں سجتی ہوں گی۔ بیگ صاحب اپنی اہلیہ کی محبت میں مسرور رہتے ہیں۔ شجاعت علی بیگ نے دوران گفتگو بتایا ‘
”میرے والدین چاہتے تھے کہ ان کو ایسی باصلاحیت بہو ملے جو ان کے پورے گھر کو سنبھال سکے۔ خوش بخت کمال کی ڈبیٹر اور منتظم تھیں۔ اُن سے شادی میرے لئے بہت بڑی خوش بختی ہے”۔
شجاعت علی بیگ کا تعلق لاہور کے بھاٹی دروازے سے ہے۔وہ پکّے لاہوری ہیں۔میاں بیوی دونوں معزز مغل خاندانوں کے چشم وچراغ ہیں۔ بیگ صاحب نے لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ کالج کے دنوں میں باکسنگ کرتے تھے۔باکسنگ کا جذبہ آج بھی موجزن رہتا ہے۔وہ مسائل کو حل کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
پاکستان اکانومی واچ کو آٹھ برس بیت گئے ہیں۔ پاکستان کی اکانومی اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے میرے تحقیقی بیانات اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ بیگ صاحب کو اکانومی واچ کا غائبانہ تعارف تھا۔ چونکہ وہ آج کل پاکستان کی سب سے بڑی تنظیم فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی پبلک ریلیشن کمیٹی کے سربراہ ہیں اس لئے ان سے ملاقات کرنا میری تنظیمی ذمہ داری بھی تھی۔ جب میں نے اکانومی واچ کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی تو انہوں نے مجھے فیڈریشن کی خدمات اور کارناموں کو میڈیا میں سامنے لانے کی ذمہ داری سونپ دی۔کراچی ہیڈ آفس کی طرف سے مجھے اسلام آباد میں فیڈریشن کی پبلک ریلیشنز کمیٹی کا انچارج نامزد کردیا۔ ان کی رہنمائی میں کوشش کروں گا کہ اس معتبر ادارے کے کام آسکوں۔
اُردو سپیکنگ گھرانے میں شادی ہوئی ہے۔ ان کا اُردو کا لب و لہجہ بھی کمال کا ہے۔ لیکن وہ اپنی ”لاہوریت” کو کبھی نہیں بھولے۔ خوب پنجابی بولتے ہیں۔ اُن کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ اُن سے ایک بار ملنے والا بار بار ملنے کی آرزو پالتا ہے۔ وہ کراچی میں لاہور کی خوشبو بن کر محبتیں بانٹتے اور چاہتیں سمیٹتے ہیں۔