Jan
14
|
Click here to View Printed Statement
سعودی وزیر خارجہ کے بعد وزیر دفاع کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس کی اہمیت کے حوالے سے گرما گرم بحثیں بپا ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حکومت مخالفت قوتیں اس دورے کو بھی متنازع بنانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سعودی وزیر دفاع کی آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیانات کے بعد پاکستانیوں کی عمومی رائے سعودی عرب کے حوالے سے بہتر ہوئی ہے۔سعودی عرب نے تمام اُمور پر پاکستان کے مﺅقف کی تائید کا اعلان کرکے بہت سے خدشات دور کر دیئے ہیں۔خوش آئند اور اندر کی خبریں یہ ہیں کہ سعودی ایران تنازعات کو ٹھنڈا رکھنے پر سرزمین حجاز سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ اور چند دنوں میں سفارتی رابطے موثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان نے سعودی سربراہی میں بننے والے 34 ملکی اتحاد میں شمولیت کا واضح اعلان کردیا ہے اور سعودی سالمیت پر حملے کی صورت میں خود کو غیر جانبداری کے مخمصے سے نکال کر واضح پوزیشن لے لی ہے۔ اس اعلان کے بعد اسمبلی میں حکومت پر مشکل وقت ضرور آئے گا لیکن سعودی عرب کا ٹوٹا ہوا اعتماد بحال ہوگیا ہے اور پاکستان کو ”تحفے“ میں ملے ایک ارب ڈالر واپس نہیں کرنے پڑیں گے بلکہ مزید مشترکہ اقتصادی منصوبوں کی نوید بھی مل گئی ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر سعودی ایران اُلجھاﺅ کو سُلجھانے کے لئے ایرانی قیادت سے مذاکرات کرے گا۔
سفارت کاری کے حساب سے دیکھا جائے تو سعودی عرب کی قیادت تیز رو ثابت ہوئی ہے جبکہ ایرانی حکومت اس حوالے سے ہنوز”ردعمل“ کے اثرات سے باہر نہیں آپارہی۔ یہ دُنیا ”ناراض“ رہنے سے حامی نہیں بن سکتی۔ بات چیت کرنی پڑی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تنازعات بہرحال بات چیت سے ہی حل ہوں گے۔اگر ایٹمی مسئلے پر امریکہ سے بات چیت کرکے اسے ایرانیوں نے حل کر لیا ہے تو پھر ایک مسلم مُلک سے ڈائیلاگ کیوں نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً جب پاکستان جیسا ہمسایہ ملک موجود ہے اور اس کے حکمرانوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ سعودی حکومت کے قریب ہیں تو پھر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔کشیدگی کسی کے حق میں بہتر نہیں۔ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مدمقابل آسکتے ہیں لیکن پاکستان کے لئے دونوں ہی ”اپنے“ ہیں۔”اپنوں“ کو باہم دست وگریبان دیکھ کر ہر پاکستانی کا دل دکھتا ہے۔سعودی عرب نے پہل کردی۔ وہ اسلام آباد آئے۔ ان کی ہر طرح سے دلجوئی کی گئی۔انہوں نے بھی ”دھمکی“ کی بجائے ”برابری“ کی بنیاد پر بات کی۔ کدورتیں دُور ہوئیں‘ قربتیں بڑھیں۔ اب ایران کو بھی آگے آنا چاہیے۔ پاکستان کو ”حقیر“جان کر اسے نفرت کا نشانہ بنانے سے کیا حاصل ہوگا۔ ہم دونوں میں سے کسی کو چھوڑ نہیں سکتے۔ہماری اس ”مجبوری“ سے ایران کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔شُکر ادا کرنا چاہیے کہ کوئی مشترکہ دوست موجود ہے۔ اسے کسی ایک کیمپ میں دھکیلنا دانش مندی نہیں ہوگا۔ایرانی وزیرخارجہ کو فوری طور پر پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے حوالے سے اپنے خدشات دور کرنے چاہیں۔جنداللہ کو غیر مﺅثر کرنے میں پاکستان نے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ لشکر جھنگوی کے حملوں کو روکنے کے لئے پاکستان کے سپاہی اور افسر شہید ہوئے ہیں۔ افواج پاکستان دہشت گرد گروہوں کو مٹانے کے لئے کونسی قربانی نہیں دے رہی؟ اب بھی ایران کو ہمارے خلوص پر یقین نہیں۔ کھلے دل سے آئیں ۔ پاکستانی قیادت کو قرآنی تعلیمات کے مطابق دونوں مسلم ممالک کے درمیان صُلح کروانے کا فریضہ نبھانا ہوگا۔ ملکوں کے مالی اور اقتصادی مسائل اپنی جگہ‘ ترجیحات اپنی جگہ لیکن قرآن ہمیں حُکم دیتا ہے کہ جب دو مسلمان گروہوں میں ناچاقی ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کروا دو۔ ہم کسی فریق کو بزور قوت قائل نہیں کرسکتے۔ لیکن اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے لگی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سعی تو کرسکتے ہیں۔