Jan
27
|
Click here to View Printed Statement
راستے روکے نہیں جاسکتے۔ قافلے منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔زمین تنگ نہیں کہ کوئی متبادل روٹ نہ مل سکے۔ نااتفاقی کے سبب اگر ایک بار اعتماد ختم ہوجائے تو پھر قافلے والے وقت ضائع نہیں کرتے۔ کاروبار میں دوستیاں نہیں ضرورتیں اہم ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاستدان آپس میں جھگڑتے رہیں گے تو چین کوئی نہ کوئی متبادل حل نکال لے گا۔ ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کاروباری رفاقت نے پاکستان کی اقتصادی راہداری کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ چاہ بہار کی بندرگاہ زیر تعمیر ہے۔گوادر نہ سہی چاہ بہار تو ہے ۔ایرانی صدر یورپ میں تجارتی معاہدے کر چُکے ہیں۔ایران کے بنکوں نے از سر نو تجارت شروع کردی ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہمارے تحفظات ہی دور نہیں ہورہے۔ وزیر منصوبہ بندی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک ”کمیونیکیشن گیپ“ پیدا ہوچکا ہے ۔ وزیراعظم کی زیرصدارت ہونے والے آل پارٹیز اجلاس میں تمام پارٹیاں متفق تو ہیں لیکن مطمئن نہیں ہیں۔ بعض کے عدم اطمینان کا سبب انتہائی ذاتی مفادات بھی ہیں۔ اگر عدم اطمینان طول پکڑ گیا تو پھر چین بھی سوچ بچار میں پڑ جائے گا۔ سمندر سے گہری اور پہاڑوں سے بلند دوستی اپنی جگہ لیکن اب چین اور بھارت کے درمیان ”دوستانہ“ چل رہا ہے۔ بھارت اب چین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ امریکہ بھی بھارت کی پشت پناہی میں کھل کر سامنے آگیا ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے پاکستان پر پے در پے لسانی حملے کئے ہیں۔ امریکی صدر کے ان حملوں سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری روکنے کا ٹھوس جواز فراہم ہوگیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں سب سے زیادہ قربانی دینے والے ملک کو ہی سب سے زیادہ قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے۔ پاکستانی معیشت کے حوالے سے اس صورتحال کا خطرناک نتیجہ سامنے آئے گا۔”ڈومور“ کے مطالبے کے ہمیشہ بھیانک نتائج دیکھنے کو ملے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت اور چین بھی جلد ہی دو ”دوست“ ممالک بن جائیں گے۔ بھارت مطالبہ کرسکتا ہے کہ اقتصادی راہداری کو بھارت تک وسعت دی جائے ورنہ متبادل راہداری بنائی جائے۔ چین نے ”نووار“ کی پالیسی اپنالی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی چین بھارت پر کوئی دباﺅ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گا۔ جب چین نے بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے تو پھر پاکستان کی خاطر وہ اپنے اقتصادی تعلقات کشیدہ کیوں کرے گا۔پاکستان تو فی الحال پٹھان کوٹ حملے کے مبینہ ذمہ داروں کو ”کیفرکردار“ تک پہنچانے کی ذمہ داری کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔
کالا باغ ڈیم ہماری قومی دانش پر بدنما داغ ہے۔ چند ٹکوں اور سستی شہرت کی خاطر انتہائی قابل عمل منصوبے کو ضائع کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کا مُکاّ بھی اپنے مخالفین کو ہی ڈراتا رہا‘ قومی منصوبوں کی تکمیل کے لئے استعمال نہ ہوسکا۔آج بھی چند سیاستدان اقتصادی راہداری کو دوسرا کالا باع ڈیم بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے ووٹرز کو الّو بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں جب کہ میاں نوازشریف اپنے تئیں سچے ہوچکے ہیں۔ قومی مفاد بھاڑ میں جائے۔ ہم بھی کیسی بدنصیب قوم ہیں۔ جب دنیا بھر کے خزانے جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے لئے کھلے ہیں تو ہم اس ”تقسیم“ سے فائدہ اٹھانے کی بجائے آپس میں ہی منقسم ہوچکے ہیں۔ باہم دست و گریبان ہجوم کو دیکھ کر سرمایہ دار ممالک صرف حیرت زدہ ہوسکتے ہیں‘ ہمارے اختلاف کو اتحاد میں بدلنے کے لئے ان کے پاس وقت ہے نہ ہی انہیں اتنی ہمدردی ہے۔
موجودہ حکومت نے شارٹ ٹرم منصوبوں پر تیزی سے کام شروع کر رکھا ہے۔ میٹروبس منصوبے‘اورینج لائن جیسے ”کارنامے“ سرانجام پا رہے ہیں۔ نواز شریف کو آئندہ الیکشن میں ہرانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ لوگوں کو اپنے سامنے سڑک‘ بس اور ٹرین دکھائی دے رہی ہے۔ دیرپا منصوبوں کے لئے آئندہ پانچ برس کا وقت مانگا جائے گا اور حسرتوں کی ماری قوم یہ وقت بھی دے دی گی۔
خدارا راہداری کو راستہ دے دو۔ یہ پاکستان کی ”لائف لائن“ ہے۔ ہم پینتالیس ارب ڈالر کی چینی انوسٹمنٹ سنبھال نہیں پا رہے اور ہمسائے کھربوں ارب ڈالر کے معاہدے کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایران اور بھارت میں چینی سرمایہ کاری پر کوئی ”تحفظات“ نہیں لیکن پاکستان میں شائد معیشت کی جگہ صرف ”تحفظات“ ہی فروغ پاتے ہیں۔