Feb
06
|
Click here to View Printed Statement
مسافر چیخ رہا تھا” خدا کے واسطے مجھے مکے مدینے پہنچا دو” میرا سامان جہاز میں اور میں ہوٹل میں خوار ہورہا ہوں” یہ صرف ایک جھلک ہے جگ ہنسائی کی۔پی آئی اے کے ملازمین نے فلائٹ آپریشن ہی بند کروا دیا۔ شہر شہر جلسے اور ریلیاںدیکھ کر اندازہہوا کہ حالت نزع کوپہنچی اس پی آئی اے نے اتنے بڑے ہجوم کو پال رکھا ہے۔ اتنے گھرانوں کو بے رزوگار کرنے سے پہلے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہاں تو پی ٹی سی ایل کے فارغ کئے گئے سینکڑوں ملازمین کو آج تک واجبات نہیں ملے’ پی آئی اے والوں کی دادرسی کون کرے گا۔
وزیراعظم سمیت وزراء کی اgیک ایسی ٹولی ہے جو صرف اور صرف کاروبار پر یقین رکھتے ہیں۔ جس کاروبار میں خسارہ ہو اس کو کاروبار نہیں کہا جاسکتا۔ خسارے کا کاروبار کون کرتا ہے۔لیکن سماجیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کو کاروباری اصولوں پر چلایا نہیں جاسکتا۔ ریاست کا حکمران عوام کے لئے باپ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہیں سختی اور کہیں شفقت۔ ریاست کا مقصد اپنے لوگوں کو پالنا ہوتا ہے۔ خسارے اور منافع کی بنیاد پر فیصلے صرف ذاتی ملوں اور شوگرفیکٹریوں میں ہوتے ہیں ‘ ملکوں میں نہیں۔مان لیا کہ حکومت پی آئی اے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ ہونا چاہیے۔ پی آئی اے کی مینجمنٹ کو ایسے کسی منصوبے کے حوالے سے اپنے ملازمین کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ یہی مینجمنٹ کا امتحان ہوتا ہے۔ یہ بڑے صبر اور تحمل کے معاملات ہوتے ہیں۔ ڈنڈا ‘گیس اور گولی تو آخری آپشن ہوتا ہے۔لیکن ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ احتجاجی گروہوں کو فوراً حزب اختلاف کی سازش قرار دے کر آخری آپشن کو پہلے استعمال کر لیتی ہیں اور جب ”آپریشن” کے نتیجے میں لاشیں گرتی ہیں اور احتجاجیوں کو تازہ خون مل جاتا ہے تو پھر حکومتیں دُبک کر بیٹھ جاتی ہیں۔ عوام اور احتجاجی جتھے آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ لوگ ذلیل و رسوا ہوتے اور حکومتوں سے نفرت کیساتھ ساتھ اپنے مُلک سے ہی بیزار ہوجاتے ہیں۔
پٹرول کے تاریخی بحران کے دوران بھی یہی ہوا تھا۔ یہی وزیر تھے۔ ان کی بڑھکیں تھیں اور حواس باختیاں ان کے چہروں پر ننگا ناچ ناچ رہی تھیں۔ جب عوام بپھر گئے تو پھر معافیوں پر بات آئی اور تجزیہ کاروں نے لکھا کہ حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے میں بڑی ” مس ہینڈلنگ” کی ہے۔حکومتیں کم ہی سیکھتی ہیں۔ کم از کم مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یقینی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے نہ سیکھنے کی قسم کھا رہی ہے۔ دھرنے سے کچھ نہیں سیکھا۔ ابھی تک فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں جبکہ ایک اور دھرنے کے لئے فضا پھر سے نمو پا رہی ہے۔
پی آئی اے کے بحران کو پیدا کرنے میں پرویز رشید’ شاہد خان عباسی اور اسحاق ڈار نے کمال کی مہارت دکھائی ہے۔ سروس ایکٹ کا راتوں رات نفاذ کیا’ پو پھوٹنے سے پہلے پولیس اور رینجرز لاٹھی گولی سے لیس ایئرپورٹوں پر پہنچا دی گئیں۔ پھر جو ہوا اور ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔ پہلے ”تڑیاں” لگائی گئیں کہ دیکھ لیں گے’ گھروں میں بھیج دیں گے’ نشان عبرت بنا دیں گے۔ جہاد اڑتے رہیں گے’ مسافر انجوائے کریں گے۔ بتایا گیا کہ پائیلٹ موجود ہیں۔ عباسی صاحب نے تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ لیکن گولی چلی اور دو ملازم ڈھیر ہوگئے۔ گولی کس نے چلائی۔ پولیس نے نہیں’ رینجرز نے نہیں۔ پھر کہاں سے آئی۔ گن کہاں سے آئی۔نشانہ کس نے لیا۔ٹارگٹ کون تھا۔ اب انکوائریاں ہوں گی۔ پرائیویٹائزیشن جہاں ہے وہیں رُک گئی۔ پی آئی اے کے احتجاج کے پردے میں پیپلزپارٹی’ ایم۔ کیو ۔ایم ‘تحریک انصاف اور جماعت اسلامی حکومت کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آگئے ہیں۔”مک مکا” پھر کرنا پڑ رہا ہے۔ مزید خسارے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
وزیراعظم بے فکر دکھائی دیئے۔ وہ پی آئی اے کا مسئلہ حل کرنے کی بجائے کوئٹہ چلے گئے۔ اقتصادی راہداری کا افتتاح کیا اور جلوس نکالنے والوں کو کھری کھری سنائیں ۔ پرویز رشید منظر سے ہی غائب ہیں۔ حکومت اپنی ”حکمت عملی” کے تحت پی آئی اے کو ہینڈل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اب ہر طرف ”مس ہینڈلنگ” چل رہی ہے۔ پے در پے ”مس ہینڈلنگ” سے کوئی بڑا ”مس ہیپ”(سیاسی حادثہ) بھی ہوسکتا ہے۔اس سے پہلے کہ کوئی مزید حادثہ ہوجائے مسافروں کو مکّے مدینے پہنچا دو!!