Feb
15
|
Click here to View Printed Statement
ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ خوف کو خوف سے خوفزدہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ خوف بڑھتا جارہا ہے۔ سیلابی پانیوں کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ذہن و قلب پر اژدھا بن کر قابض ہوچکا ہے۔ بچے ‘بوڑھے جوان’ کمزور اور طاقتور محفوظ اور محصور۔ سب اس خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔دہشت گردوں نے ہمیں کس قدر اپنے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔
راولپنڈی کے ایک کالج میں بچیوں کو بھاگتے’ چیختے اور کانپتے دیکھا۔ دہشت گرد آئے نہیں صرف ان کی دہشت کا امکان آیا ہے۔ سائرن بج اٹھے اور سائرن بجتے ہی خوف پھن پھیلا کر سامنے کھڑا تھا۔ قوم کی بیٹیوں کے پاس بے آسرہ ہو کر رونے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔بے بسی کے یہ آنسو اخبارات اور ٹی وی سکرین پر پڑے تو گھروں میں بیٹھے لوگ سہم گئے۔ضرب عضب جاری ہے اور بڑی کامیابی سے جاری ہے۔اکا دُکا واقعات روکے نہیں جاسکتے لیکن درندے اس ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے ہماری بہادرمسلح افواج’پولیس اور عوام نے جان کی قربانیاں دے کر درندوں کے دانت توڑ دیئے ہیں ‘پنجے مروڑ دیئے ہیں۔ مرے نہیں ہیں اس لئے تعلیمی اداروں پر حملوں کی دھمکیاں بجھواتے رہتے ہیں۔ بزدلوں کا یہ آخری ہتھیار ہوتا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دہشت گرد عملاً ادھموئے ہوچکے ہیں لیکن حیرت انگیز پہلو ہے کہ ان کا خوف پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکا ہے۔راولپنڈی میں دہشت گردوں کی آمد کی افواہ نے جو سراسیمگی پھیلائی اور جس طرح باقی سکول بھی بند کردیئے گئے اس کی ایسی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی۔ چند ماہ میں کیا ہوا کہ اب ایک ایک افواہ پر ہم حواس باختہ ہو کر بھاگنے لگتے ہیں اور جو بھاگ نہیں سکتے وہ رونا شروع کردیتے ہیں۔
چارسدہ یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد پورے پاکستان میں خوف و ہراس پھیلانے کا سہرا حکومت کے سرجاتا ہے۔ اس دور کی سب سے بڑی نظریاتی شکست اور نفسیاتی ہزیمت حکمرانوں کی نافہمی اور بے تدبیری کے سبب اس قوم کے نصیب میں آئی ہے۔ ننھے مُنھے ذہنوں میں بھی ہم نے دہشت گردوں کے ہیولے بھر دیئے ہیں۔ ہم نے اپنی نسل نو کے دلوں میں آئندہ ساٹھ ستر سالہ زندگی میں خوف زدہ رہنے کے لئے کافی مواد ٹھوس دیا ہے۔ ہم کیسی قوم تیار کر رہے ہیں۔ڈری ہوئی ‘سہمی ہوئی’ خود کلامی کرتی ہوئی’ اپنے سائے سے ڈرتی ہوئی۔ کالج اور سکول جاتے ہوئے مائیں اپنے بچوں کو ”امام ضامن” باندھ کربھیجتی ہیں وہ سکول جاتے ہیں اور ان کا پہلا تعارف کلاشنکوف سے ہوتا ہے۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ کس طرح دہشت گرد گولیاں چلاتے ہیں ‘ کس طرح تم نے ڈیسکوں کے نیچے گھسنا ہے اور کس طرح لاشوں کو اٹھانا ہے ۔ یہ کیسی تربیت ہے۔
کراچی کے ایک کالج میں لڑکیوں کے سامنے دہشت گردی کے حادثے کا مظاہرہ کیا گیا۔ لڑکیوں کو بتایا گیا کہ جونہی فائرنگ ہوگی تم دُبک کر ایک دوسرے کے پیچھے چُھپ جائو گی۔ پھر کمانڈوز اُتارے جائیں گے اور وہ دہشت گردوں کو دبوچ لیں گے۔اُن کو گولیوں سے بھون ڈالیں گے اور پھر ان کی لاشوں کو گھسیٹ کر لے جائیں گے۔ یہ مشق مصنوعی تھی لیکن ایسی ہیبت ناک تھی کہ بچیاں سسکیاں لے کر روتی رہیں۔
ہم کیسی بزدل نسلیں تیار کر رہے ہیں جان مال کا تحفظ ایسے انداز سے کر رہے ہیں کہ انسان نہ زندہ رہنا چاہیے نہ مال و متاع کی خواہش رہے۔سب کو نفسیاتی مریض بنا دو یہی تو دہشت گرد چاہتے تھے وہ ہم نے کرکے دکھا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے فیصلہ سازوں نے داعش اور طالبان کے گروہوں سے”سپاری” لی ہے۔ کاش کہ کوئی جانتا ہو کہ اللہ میاں کے عذاب کی دو بدترین شکلیں ہیں۔ وہ جب کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اسے بھوک اور خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔بھوک پر تو شائد اپنی محنت سے قابو پالیں لیکن یہ جو خوف آگیا ہے اس سے کیسے چھٹکارا پائیں۔ اہل قلب و نظر کوئی دُعا کرو’ کوئی سبیل نکالو’کوئی وظیفہ بتائو کہ کس طرح اس خوف پر قابو پایا جاسکے۔بھوک کی موت بھی بہت بُری ہوتی ہے لیکن خوف کی موت! آلامان الحفیظ!