Mar 01

Click here to View Printed Statement

پچیس برس سے اسلام آباد کے دیہی علاقے میں متوسط اور غریب گھرانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ڈاکٹر نعیم غنی سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے وہ بے سکول بچوں کی دردناک کہانی سناتے ہیں۔”جوبچے کسی مدرسے یا سکول میں پڑھ رہے ہیں حکومت کی ساری توجہ ان کی طرف ہوتی ہے لیکن وہ اڑھائی کروڑ بچے جن کے لئے نہ سکول ہے نہ اُستاد وہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔اُن کے بارے میں کسی کو فکر ہی نہیں”۔”حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جس ملک میں تعلیم کا بجٹ ہی دو فیصد سے آگے نہ بڑھا ہو اُس مُلک میں دانش سکول ایک مذاق ہی لگتا ہے”۔
”تعلیم عام کرنا اور ہر بچے کو سکول میں داخل کرنا آئینی تقاضا ہے لیکن شائد آئی ایم ایف کا دبائو ہے کہ صحت اور تعلیم پر سرکاری خزانے سے رقم نہ لگائی جائے اور اسے پرائیوٹائزڈ ہی رہنے دیا جائے”۔
سُلطانہ فائونڈیشن کے اس زیرک چیئرمین کے پاس ٹھوس اعدادوشمار ہیں’دلائل ہیں اور درد دل بھی ہے۔ وہ ہر فورم پر بے سکول بچوں کا مقدمہ لڑتے ہیں۔اُن کی پریشانی کی بازگشت ایک سرکاری رپورٹ میں بھی سنائی دی ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم اور تعلیمی منصوبہ بندی کی اکیڈمی ”ایپام” کی رپورٹ بہ عنوان ”پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس” میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تقریباً نصف بچے سکول میں نہیں پڑھتے اور سکول سے باہر بچوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔پاکستان میں پانچ سے سولہ سال تک کے بچوںکی تعداد تقریباً پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں اور بغیر کسی تعلیم کے جوان ہورہے ہیں۔ رپورٹ میں اُن بچوں کا بھی ذکر ہے جو سکول میں داخل ہوئے لیکن انہوں نے پانچویں کلاس کے بعد سکول چھوڑ دیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اسی فیصد سکول پرائمری سطح کے ہیں اور اُن میں سے تیس فیصد ایسے سکول ہیں جن میں صرف ایک استاد دستیاب ہے۔نصاب ‘ تعلیمی معیار اور اساتذہ کی پریشان کن صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے۔
اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم وتربیت جناب بلیغ الرحمان نے آئیں بائیں شائیں کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا سکول سے باہر رہنا باعث ندامت ہے۔
بلیغ الرحمن اچھے وزیر ہیں کم از کم انہوں نے حقائق تسلیم کر لئے ہیں اور اپنی ندامت کا اظہار بھی کردیا ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم پاکستان اپنی نورِ نظر محترمہ مریم نواز اور اپنے کار خاص جناب ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت کے کسی سرکاری سکول میں جلوہ گر تھے۔ وہاں انہوں نے ایک ماہر اتالیق کا رول اپناتے ہوئے ”معصوم” بچوں سے سوالات کئے’ ان کے ساتھ وقت گذارا اور سکول کی سہولیات بہتر بنانے پر احکامات جاری فرمائے۔ جب سے تعلیم کے پھیلائو کے لئے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو امریکہ سے کروڑوں ڈالر ملے ہیں تب سے اسلام آباد کے سرکاری سکولوں میں پرائم منسٹر کی آمد کے سلسلے میں بھی چل نکلے ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیڈرل سکولوں میں ایسے بدقسمت سکول کثرت میں موجود ہیں جہاں بچیوں کے لئے ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں’ ایسے کالج موجود ہیں جہاں سٹاف نہیں ۔جب وزیراعظم کا دورہ ہوتا ہے تو سکول کی چمک دمک دیدنی ہوجاتی ہے۔ لیکن جونہی دورہ ختم ہوتا ہے پھر وہی اُجڑی بستیاں اور ٹوٹے بنچ نمودار ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف میاں شہبازشریف کے بند ہوتے ہوئے دانش سکول ہیں اور دوسری طرف امید کی رسی سے بندھے وفاقی سکول ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت صرف درشنی اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔ جب سکول جانے والے اڑھائی کروڑ بچوں کی حالت سُدھر نہیں پارہی تو جوبچے سکول سے واقف ہی نہیں اُن کے لئے کون پریشان ہوگا!
سُلطانہ فائونڈیشن نے اپنے یوسف صراف سنٹر کے ذریعے موقعہ سکولوں کا جال پھیلایا ہے۔ یہ بے سکول بچوں کو سکول میں لانے کی بجائے اُن کے گھروں ‘کارخانوں’دُکانوں اور کچی بستیوں کے اندر اُن کی تعلیم وتربیت کا قابل عمل منصوبہ ہے۔ فائونڈیشن نے ان بچوں کی عمر’ ذہنی قابلیت اور فراغت کو سامنے رکھ کر مخصوص نصاب ترتیب دیئے ہیں۔
”ہم نے ایک ماڈل دے دیا ہے۔ اس ماڈل کو جگہ جگہ دھرایا جائے تو چند سالوں میں اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول میں داخل کئے بغیر تعلیم سے بہرہ مند کیا جاسکتا ہے”۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک ملاقات میں ”موقعہ” سکولو ںپر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا۔ یہ ایک انقلابی منصوبہ ہے۔چھوٹے پیمانے پر اسلام آباد میں عمل درآمد جاری ہے۔مخیر حضرات ایسے سکولوں کو گود لے رہے ہیں۔ یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر وزیر تعلیم شرمندہ ہونے کی بجائے ڈاکٹر نعیم غنی جیسے لوگوں سے مل لیں تومستقل شرمندگی سے قوم کو بچایا جاسکتا ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply