Mar
22
|
Click here to View Printed Statement
دل دہلا دینے والی تصویریں سامنے پڑی ہیں۔ گاندھی کے پیروکار اس قدر سنگدل ہوجائیں گے۔ یہ کوئی ہندو مسلم فسادات کی تصویر نہیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق دو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھیانک منظر ہے۔ تصویر میں دو نوجوان دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے گلے میں کسے ہوئے پھندے ہیں۔ اُن کے لٹکتے ہوئے دھڑ ہیں۔آنکھیں باہر کو آگئی ہیں۔ وہ درختوں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کا اصلی جُرم یہ ہے کہ مسلمان ہیں۔ہندو انتہا پسندوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گائے خریدی ہے۔ جھاڑ کھنڈ کی سرکار’ پولیس’ عدلیہ’ سماج سب کے سب ایک ہی طرح کی ذہنیت یعنی مودی ذہنیت کا شکار ہیں۔ کسی نے نہیں روکا’کوئی آگے نہیں آیا۔ کسی نے مسلمانوں کا مئوقف سننے کی زحمت نہیںکی۔مائیں روتی رہیں’ بہنیں منتیں کرتی رہیں’ بچے بلبلاتے رہے۔ لیکن ظالم اور سفاک ہندوئوں نے جنگلوں میں لے جا کر ان مسلمانوں کو شہید کردیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ ہر روز یہی سفاکیت ہے۔ بھارتی ادارے رپورٹیں دے چُکے ہیں کہ کس طرح بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔
مذہب کی تبدیلی تو اب پرانا قصہ ہوگیا اب تو جان کی حفاظت بھی نہیں ہورہی۔ ہندو جتھے جب چاہتے ہیں کسی مسلمان گھر پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ عزت’آبرو’مال سب اُن کے رحم و کرم پر ہے۔مسلمانوں کا مسلمہ قاتل حکومت کر رہا ہے۔ اُس نے جگہ جگہ ”گجرات” بنا دیا ہے۔ شیوسینا اور بی جے پی ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔ اویسی برادران چیخ چیخ کر دُنیا کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت مسلمانوں کے لئے دوسرا میانمر بن گیا ہے۔ انسانیت کے دعویداروں کے کان اور آنکھیں بند ہیں۔جتنی بڑی جمہوریت ہے اتنی بڑی بے حسیّ ہے۔ کبھی کشمیری طلبہ کو یونیورسٹیوں سے خارج کیا جاتا ہے۔ کبھی گائو کے نام پر قتل گاہ سجائی جاتی ہے۔ نریندر مودی صوفی ازم کے جلسوں میں امن کا درس دیتا ہے اور عین اسی وقت اس کی آشیرباد میں پلنے والے ہندو بھیڑئے بے گناہ مسلمانوں کا قتل کردیتے ہیں۔ کوئی نہیں بولتا۔ اکثریت کے جن کے سامنے سب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز پر خاموش رہی ہیں۔مظلوم مسلمانوں کے قتل کے پے در پے چھ خونی واقعات صرف ایک ہفتے میں ریاست جھاڑ کھنڈ میں رُونما ہوچکے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کی رپورٹیں پڑھ لیں۔ کہیں بھینس چوری کا الزام ہے’ کہیں گائے کی اسمگلنگ کا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ کہیں گائے کا گوشت پکانے کا ڈرامہ ہے۔ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کسی نہ کسی مسلمان کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ دہلی سرکار کا کام انتہا پسندوں کو کسی قسم کی سزا سے بچاتے رہنا اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے پناہ دینا ہے۔ بظاہر بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور مذہبی منافرت اُس کے آئین اور قانون میں حرام ہے۔لیکن عملاً پوری ریاستی مشینری مسلمانوں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جارحیت پر کمربستہ ہے۔ چوبیس کروڑ بھارتی مسلمان سوچتے رہتے ہیں کہ وہ اس جہنم سے باہر کیسے آئیں۔
ہماری حالت عجیب ہے۔ہماری حکومت بھارت میںہونے والے ان مظالم کی مذمت کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہم نے سندھ کے چند لاکھ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لئے پورے سندھ میں عام تعطیل کا اعلان کردیا ہے۔ہم اس قدر خوف زدہ اور بھارت زدہ ہیں کہ مذمت کے دو لفظ بھی ادا نہیں کرپاتے۔ بلاول بھٹو کا شکریہ انہوں نے کم از کم مذمت کی ہے۔لیکن پاکستان کا صدر’ وزیراعظم’ وزیر مذہبی اُمور’وزیرخارجہ یہ سب لوگ کہاں سو رہے ہیں۔کم از کم انسانی حقوق کی چادر اُوڑھ کر ہی احتجاج کردیجئے۔ کیا اب ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ بھارتی مسلمانوں کے لئے کسی عالمی فورم پر آواز ہی اٹھا سکیں۔
کہا جاتا ہے کہ اگر حکومتی سطح پر کوئی بیان دیا گیا تو ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کا جینا دوبھر کردے گی۔ آپ نے امن کی آشا کا راگ آلاپ لیا۔ بے شرموں کی طرح کرکٹ میچ دیکھنے کلکتہ چلے گئے۔ آپ 23 مارچ سرکاری سطح پر منا رہے ہیں۔ یوم پاکستان کی بنیاد کا پتہ ہے؟۔ یہ امن کی آشا نہیں’ دو قومی نظریہ ہے۔ یہ مُلک مسلمان قوم کے لئے بنا تھا۔ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں نے ہی تحریک پاکستان چلائی تھی۔ حکمرانی کے مزے لُوٹنے والو اپنی بُنیاد کو بچانے کی فکر کرو۔ مظلوم اقوام کا ساتھ دینا آئین پاکستان میں درج ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو مسلمان نہ سہی انسان سمجھ کر ہی اُن کے حق میں آواز اٹھا دو!قرآن پڑھو۔ یہ حکم ربی ّہے’
”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اُن لوگوں کی مدد کو نہیں پہنچتے جنہیں کمزور پا کر دبا لیاگیا ہے۔”