Mar
22
|
Click here to View Printed Statement
عافیہ صدیقی کی واپسی ممکن نہیں۔حکومت پاکستان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا کہ چونکہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ قیدیوں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں اس لئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانا ممکن نہیں ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے ہائیکورٹ کے جسٹس انوارالحق قریشی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حوالگی کے لئے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا اور مئوقف اختیار کیا کہ موجودہ حالات میں ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لانا ناممکن ہے۔عدالت نے سماعت دو ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔حکومتی مئوقف پاکستان کے محب وطن اور انصاف پسند حلقوں پر بجلی بن کر گرا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستان کی بیٹی عافیہ کو پاکستان واپس لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
وزیر داخلہ نے ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین بھی دلاتے رہے ۔ لیکن عدالت میں حکومت کے بیان نے واپسی کی تمام اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ 2003ء میں لاپتہ ہوئی تھیں۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا عروج تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل صاحب نے ہی ڈاکٹر صاحبہ کو امریکہ کے حوالے کیا تھا اور اس کا راستہ یہ نکالا تھا کہ پہلے انہیں کابل میں بھیجا گیا اور وہاں سے امریکی انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں مقدمہ چلا اور انہیں یکطرفہ طور پر سزا سنا دی گئی۔اسلام کی بیٹی پرامریکی قید میںاس قدر تشدد کیا گیا کہ اُن کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہ رہا۔ اُن کے بچوں اور دیگر اہل خانہ کو آج تک ناقابل بیان اذیت سے گذرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے تحریک چلائی اور اب بھی وہ ان کی رہائی کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔
حکومت کے دو ٹوک مئوقف کے بعد بہت سے سوالات پھر سے اُٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔پاکستان نے امریکہ کے متعدد مطلوب پاکستانیوں کو بغیر کسی معاہدے کے حوالے کردیا ہے۔ لوگوںکو یاد ہے کہ کس طرح ایمل کانسی کو امریکی اُٹھا کر لے گئے اور حوالے کرنے والے پاکستان کے حکمران ہی تھے۔ ریمنڈڈیوس کو تو خود مسلم لیگی حکومت نے ہی امریکہ کے حوالے کیا اور مقتولین کے ورثاء کا کچھ علم نہیں کہ اُنہیں زمین نگل گئی یا آسمان لے اڑا۔ پرویز مشرف نے تو انتہا کردی تھی۔ درجنوں پاکستانیوں کو دن دیہاڑے اٹھا کر امریکی ”کتوں” کے آگے ڈال دیا گیا۔ افغانستان کے طالبان سفیر کو بھی بخشا نہیں گیا تھا۔ ذہن سوال کرتے ہیں کہ آخر ہماری خودمختاری کہاں گئی۔ امریکہ کا مطلوب شخص حوالے کرنا ہو تو کوئی قانون درکار نہیں ہے۔ عدلیہ مقننہ اور پولیس سب چُپ سادھ لیتے ہیں۔مقتدر حلقے بھی خاموش دکھائی دیتے ہیں لیکن جب کسی پاکستانی کو واپس لانے کا معاملہ ہو تو قانون رُکاوٹ بن جاتا ہے۔ قانون بھی عجیب ہے۔قادری کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل نہیں ہوسکتی’دیت کا معاملہ بھی طے نہیں ہوسکتا لیکن ریمڈڈیوس کی رہائی اور حوالگی کے لئے ہر سہولت اور قانونی گنجائش سینہ کھول کر سامنے آجاتی ہے۔
ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ امریکہ دُنیا کا بدمعاش ترین ملک ہے۔اُس کی طاقت کا سکہ چلتا ہے۔ اس کی ایک فون کال پر ہم ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ وہ پاکستانی حدود میں گھس کر اُسامہ کمپائونڈ پر حملہ کرسکتا ہے۔ ہم چند روز مصنوعی ناراضگی کے علاوہ کچھ بھی کر نہیں پاتے۔ غربت ایک بہت بڑی کمزوری ہوتی ہے۔کمزور ملکوں کا کوئی حق خودمختاری نہیں ہوتا۔ لیکن ہم عوام کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتے ہیں۔ میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ وہ تاریخ پاکستان کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں۔وہ اس قدر دین دار اور سچے عاشق رسولۖ ہیں کہ گھنٹوں چوکڑی مار کر روضہ رسولۖ پر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی نیت پر شک نہیں ان کی سیاست پر اعتراض ہے۔اگر امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس کرنے پر تیار نہیں تو کم از کم قانون کے پیچھے مت چُھپیں۔ اس دروغ گوئی کا عدالت میں فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے لیکن عوام کی عدالت میں یہ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر حوالگی کا معاہدہ ہی رُکاوٹ ہے تو یہ معاہدہ کرنے میں کونسا عمل مانع ہے۔ معاہدہ کر لیجئے۔ڈاکٹر صاحبہ کی رہائی کے بعد معاہدہ توڑ دیجئے۔آئین شکن پرویز مشرف کو باہر بھجوایا جاسکتا ہے تو ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے کے لئے قانون سازی بھی ہوسکتی ہے۔
کوئی شرمین چنائے نہیں جو ڈاکٹر عافیہ کی زندگی پر فلم بنائے۔ ایسی فلم نہیں بن سکتی۔ کیونکہ اس کو آسکرایوارڈ نہیں ملے گا بلکہ اس پر پابندی لگ جائے گی۔ میاں صاحب کے سیاسی گناہ کم ہوسکتے ہیں۔ راستہ سامنے ہے۔ غربت کی موت بھی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن بے غیرتی اور بے حمیتی کی موت تاریخ بن جاتی ہے۔!