Mar
28
|
Click here to View Printed Statement
پنجاب میں بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہو چُکا ہے۔ سانحہ اقبال پارک نے حکمرانوں کو جگا دیا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپریشن کے لئے شائد کسی خونی المیے کا انتظار کیا جارہا تھا۔ ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کی طرف سے بار بار یہ سوال اُٹھایا جارہا تھا کہ آخر پنجاب میں دہشت گردوں کیخلاف رینجرز کا آپریشن کیوں نہیں ہورہا۔ یہ الزامات بھی تواتر سے لگے اور لگ رہے ہیں کہ پنجاب حکومت میں بعض وزراء دہشت گرد گروپوں کے حامی ہیں اور وہ اس آپریشن کی راہ میں ہر باررُ کاوٹ بن جاتے ہیں۔ بعض حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پنجاب میں آپریشن کرنے کا ردعمل بہت ہی شدید ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے حکومت اسے پولیس اور دیگر اداروں کی کارروائیوں تک محدود رکھنا چاہتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں دو سو کے لگ بھگ ایسے مدرسے پائے جاتے ہیں جن کو بیرونی ممالک سے فنڈنگ ہوتی ہے اور انہی مدرسوں میں دہشت گرد پناہ لیتے اور آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔حکومت پنجاب کا مئوقف ہے کہ گذشتہ ایک برس میں مختلف کارروائیوں میں سینکڑوں دہشت گردوں کو پکڑا گیا ہے اور اس پکڑ دھکڑ کے سبب دہشت گردی کے ممکنہ بیسیوں حملوں کو پیشگی روک لیا گیا ہے۔
”را” کے اعلیٰ سطح کے جاسوس کی کوئٹہ سے گرفتاری عمل میں آئی ہے اور جاسوس کے مبینہ انکشافات نے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو نئی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورہ کے دوران ہمارے سپہ سالار نے ایرانی وفد پر واضح کردیا ہے کہ اُن کے ساحلی شہر چاہ بہار میں ”را” کی پاکستان مخالف سرگرمیاں ”بہار” دکھا رہی ہیں۔ ایک قانونی ریفرنس بجھوانے کی تیاری ہورہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ”را” کو ایرانی شہر سے ہر سہولت دستیاب ہورہی ہے اور پاکستان میں کوئی پانچ ہزار کے لگ بھگ جاسوس اور تخریب کارداخل ہُوچکے ہیں جو مختلف طریقوں سے بلوچستان اور پورے پاکستان میں دل دہلا دینے والی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ”چاہ بہار” میں میسر سہولتوں کے پیچھے ایرانی حکومت کی کوئی آشیرباد بھی موجود ہو۔ حکومت پاکستان ایران سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ چاہ بہار میں ”را” کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کرے۔ایرانی حکومت کے آئندہ کے اقدامات سے بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔ مذہبی طبقہ کی طرف سے سانحہ اقبال پارک میں ”را” کے ملوث ہونے کا موقف سامنے آیا ہے۔ طالبان کے احرار گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ یاد رہنا چاہیے کہ طالبان سے وابستہ بعض گروہوں نے پاکستان کو ”دارالکفر”قرار دے رکھا ہے۔ اُن کے فسادی خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بہت سے مدرسوں کے اندر اسی سوچ کے حامل خطیب موجود ہیں اور وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ حکومت’ پاک فوج اور پولیس بلکہ پاکستانی عوام کے خلاف قتل کے فتوے دیتے رہتے ہیں۔لال مسجد کے خطیب کچھ عرصہ سے بوجوہ خاموش ہیں لیکن اُن کے اردگرد وہی گروہ ہے جو فوج پر کھلے عام حملے کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ بہت سے شدت پسند گروہ خود کو ”داعش” سے وابستہ کرچُکے ہیں۔ تباہ کن حملوں کی تربیت اور برین واشنگ کے لئے سینکڑوں پاکستانی عراق اور شام جا چُکے ہیں۔ داعش نے دنیائے اسلام میں پھیلے شدت پسندوں کو ایک مرکز فراہم کردیا ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ”احرار” وغیرہ اب محض مقامی گروہ نہیں رہے۔یہ سب ایک بین الاقوامی نیٹ ورک سے جڑے ہیں اور ایک دوسرے کو فنی’ مال اور نظریاتی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی اور عسکری قیادت نے پشاور سکول پر حملہ کے بعد بڑی عرق ریزی کیساتھ ایک نیشنل ایکشن پروگرام بنایا تھا۔ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس ایکشن پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ خصوصاً شدت پسند انہ نظریات اور فسادی ذہنیت کے خلاف کسی قسم کا کوئی جامع پروگرام شروع نہیں ہوسکا۔ یہ طالبان ہوں یا کوئی اور گروپ کے لوگ۔ اپنی ہر کارروائی کے لئے کوئی نہ کوئی مذہبی جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سادہ لوح لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی محبت کے سب ان گروہوں کے چُنگل میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔”نفاذ شریعت” کا مطالبہ ان فسادیوں کی ڈھال بن جاتا ہے۔ کون سا مسلمان ہے جو شریعت کے خلاف بات کرے گا؟ لیکن اگر شریعت کے نفاذ کے لئے فساد برپا کرنا ہے تو پھر یہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی۔اس وقت استحکام پاکستان اول ترجیح ہونی چاہیے۔ اور اس استحکام کے لئے جہاں ایک طرف قدم قدم پر پھیلی اخلاقی’ معاشی’ عدالتی اور سماجی ناانصافیوں کا بتدریج خاتمہ ضروری ہے وہیں فسادی ذہنیت پر کاری ضرب لگانے کا وقت آگیا ہے۔ پنجاب میں فوج کا آپریشن ضرور کامیاب ہوگا۔لیکن دیر پا امن کے لئے مخصوص ذہنی جھتوں کو ‘
”الفتنة اشد من القتل” کی طرف مائل کرنا ہوگا۔