Apr
13
|
Click here to View Printed Statement
مشرف دور میں مملکت پاکستان کو سیاسی طور پر ہی نہیں نظریاتی طور پر بھی فکری انتشار کی دلدل میںدھکیل دیا گیا تھا۔ آج بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں ہمارے نظریاتی محاذ پر شخصی شب خون کے آثار پوری طرح نمایاں ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں کسی مشترکہ فارمولے پر متفق ہوجانے کے بعدمرکز میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کو کوئی اہل مسلم لیگی وزیر سنبھال لے اور پہلی کلاس سے لے کر اعلیٰ تعلیمی نصاب تک جابجا پھیلی ہوئی فکرو نظر کی تباہ کن بارودی مائنز کو صاف کرکے دل و دماغ کے لئے خالص اسلامی اورپاکستانی غذا فراہم کرنے کا سبب پیدا کرسکے۔ آج جس قدر تعلیمی نصاب کی اصلاح ضروری ہے شائد ہی کسی اورشعبے میں ایسی ایمرجنسی تقاضا کرتی ہو۔
محترم مجید نظامی ‘محترم نسیم انور بیگ اور جنرل حمید گل جیسی ملی شخصیات کے سبب نظریہ پاکستان کے چراغ پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتے رہے ہیں اور ”روشن خیالی“ کی تمام تر آندھیوں کے باوجود عام پاکستانی انہی چراغوں کے طفیل صراط مستقیم سے بھٹک نہیں سکے اور بالآخر فکری انتشار کے سرپرست اعلیٰ کو آرمی ہاﺅس میں مقید ہونا پڑا ہے۔ آج کوئی ایک بھی جنرل مشرف کے نظریہ روشن خیالی کا نام تک لینے پر تیار نہیں ہے۔حدّ تو یہ ہے کہ ”دین پرویزی“ کے پرچارک اورشاہ کے درباری اورمیراثی سب کے سب روپوش ہوگئے ہیں۔ جو مشرف کو سید مشرف کہہ کر ان کے ہاتھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگایا کرتے تھے آج مشرف کا نام لبوں پر لانے سے پہلے ”لعنت اللہ علیہ“ کہنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ جنہوں نے قائداعظمؒ کے اس عظیم وطن کو تاریخ انسانی کے بہترین آفاقی نظریے سے محروم کرنے کی کوشش کی تھی آج پاکستان کے منظرنامے سے ہی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے والے اپنے ماضی کو گناہوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ احساس ج±رم کے زیر بار خود کلامی کرتے ہیں‘
دامن کو لئے ہاتھ میں اب تو کہتے ہیںیہ قاتل
کب تک اسے دھویا کریں‘ لالی نہیں جاتی
فکری لفنگوںاور نظریاتی اچکوں نے سیکولرازم کو خدا مان کر اس کی دن رات پوجا کی اور میرے وطن کے ان معصوم پھولوں کو تعلق بااللہ اور عشق رسول سے دور رکھنے کے لئے قلم وقرطاس کا بے دریغ استعمال کیا لیکن اس ملک کی خوش بختی کہ اسے 23مارچ جیسے عظیم ایام ورثہ میں ملے ہےں۔ یوم پاکستان‘ منٹو پارک اور قرارداد پاکستان‘مینار پاکستان یہ وہ ٹھوس حقیقتیں ہیں جو کوئی طالع آزما مٹا سکا نہ مٹا سکے گا۔ جس عظیم قوم نے انگریز اور ہندو دونوں کے جبر کو لاالہ اللہ کے نعروں سے بے بس کردیا وہ امریکہ اور یورپ کے ڈالروں اور ڈرونز دونوں کو …. کسی ایک لانگ مارچ ‘کسی ایک عوامی تحریک میں بہا سکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔
میں اپنے دوست معروف کالم نگار جناب بیگ راج کے اس خیال سے پوری طرح متفق ہوگیا ہوں کہ ”پاکستانی قوم معجزے کردینے والی قوم ہے اور دنیا بھر کے غلط اندازوں اور متعصبانہ تجزیوں کو غلط ثابت کرنے میں پاکستانیوں کو زیادہ وقت نہیں لگتا“۔
یہ نظرءیہ پاکستان کی حقانیت ہے کہ آج پاکستان پیپلزپارٹی کے منتخب وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی بھی اسی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کی تعمیروترقی کی بات کرتے ہیں۔آج نظریہ پاکستان کسی ایک جماعت یا گروہ تک محدود نہیں رہا۔ جس طرح قیام پاکستان کے وقت برصغیر کے طول و عرض میں دو قومی نظریے نے ایک گونج پیدا کردی تھی آج پھر یہ ہوا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اسی نظریے کی کوکھ سے جنم لینے والی قرارداد مقاصد کو اپنی بنیادی دستاویز قرار دیتی ہے۔ ساٹھ باسٹھ برس میں قوم رسول ہاشمی کو خوفناک جھٹکے دیئے گئے لیکن قوم ہر جھٹکے کو جھٹک کر آگے بڑھتی رہی ہے۔اور بقول اقبال مرحوم
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے ا±دھر نکلے ا±دھر ڈوبے ادھرنکلے
آج ہم بہت ہی بہتر حالات میں 23مارچ منا رہے ہیں ۔ آج نظریہ پاکستان ہم سب سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم قرآن میں متعین کردیئے گئے ترقی وعروج کے اصول و ضوابط کی بنیاد پر پاکستان کی تعمیروترقی کے سفر پر پھر سے رواں دواں ہوجائیں۔ آج دو قومی نظریہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کو اس خطے اور اس دنیا میں آگے بڑھنا ہے‘ تعلیم کے ذریعے‘ تربیت کے ذریعے‘اخلاق کے ذریعے اور اطوار کے ذریعے…. اچھا پاکستانی‘مثالی پاکستانی…. اب ایسا پاکستانی جو ستاروں پر کمند ڈالے‘ جو سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے جونینو ٹیکنالوجی کاحامل ہو۔ اور یہ سب کچھ اس لئے کرے کہ قائداعظم کا یہ ملک‘دنیا میں معاشی‘سماجی اور سیاسی طور پر دوسرے ممالک کےلئے مثال بن سکے۔ اسلامی معیشت‘اسلامی معاشرت‘اسلامی سیاست اور اسلامی عدالت۔ اب ہماری جدوجہد صرف اور صرف تعمیر پاکستان کے لئے مخصوص ہوجانی چاہیے۔!
یہ مضمون23مارچ کے حوالے سے نظریاتی سکول راولپنڈی اسلامک سکول آف ایکسیلنس (رائز)کے زیر اہتمام ”تقریب قرارداد پاکستان“ میں پڑھا گیا