Apr 28

Click here to View Printed Statement

سچائی ہی نظریہ پاکستان کا جوہر ہے۔ نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی اساس ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران مخالف لابی نے ایک ایک رہنما کے بارے میں مسلسل چھان بین کی۔کردار کشی کی مہم بھی زوروں پر تھی۔ہندو دانشور دن رات اکابرین ملت کے مالی اور اخلاقی معاملات کی کھوج لگاتے رہتے تھے۔آپ سات برس کی آزادی کی جدوجہد کو پڑھ لیجئے۔ مخالفین کے حملوں کے احوال اور الزامات کی بوچھاڑ کا تذکرہ دیکھ لیجئے۔ کہیں ایک جملہ بھی تحریک پاکستان کے رہنماﺅں کے کردار کے حوالے سے سامنے نہیں آئے گا۔ ایک روپے کی کرپشن کا ذکر نہیں ملے گا۔ ہر رہنما صرف ستھرے کردار میں ڈھلا ہوا سامنے کھڑا ہوگا۔قائداعظمؒ کی ایمانداری کی تعریف تو دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی بنیادوں میں نہ کہیں ہوس زر ہے نہ کوئی رشوت ہے اور نہ ہی کوئی مالی منفعت سامنے آتی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ ہم نے آم کے درخت کا بیج بویا لیکن ہمیں تھور اور بیول کے کانٹوں کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز تجزیہ کار اور کالم نگار جناب جاوید صدیق میرے آفس میں تشریف لائے۔جناب بیگ راج بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سیاست میں کرپشن پر بات شروع ہوئی۔ جاوید صدیق بتا رہے تھے کہ تحریک پاکستان کے رہنماﺅں نے قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے کس طرح کی مالی قربانیان پیش کیں۔قائداعظم ؒ محمد علی جناح ؒنے اپنی جائیداد پاکستان کے نام کردی تھی۔اپنی بیٹی کو بھی ایک پائی تک نہ دی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب نواب لیاقت علی خان پاکستان بننے سے پہلے پچیس دیہاتوں کے مالک تھے۔ انہیں جب لیاقت باغ میں شہید کیا گیا تو پوسٹ مارٹم کے لئے ان کے جسد خاکی کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وزیراعظم پاکستان کی بنیان جگہ جگہ سے پٹھی ہوئی تھی اور جرابوں میں سوراخ ہوئے تھے۔ شہید ملت کے اکاﺅنٹس میں صرف چون روپے پڑے ہوئے تھے۔ حسین شہید سہروردی بھی اپنی ایمانداری کے سبب مشہور تھے۔ وہ وزیراعظم ہاﺅس میں جو چائے پلاتے اس کا بل اپنی جیب سے دیتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے ایک وزیراعظم محمد خان جنیجو مرحوم نے وزیراعظم ہاﺅس کا خرچہ دس لاکھ سے کم کرکے ایک لاکھ کردیا تھا۔ اُن کے دور میں وزیراعظم ہاﺅس میں سختی سے حکم تھا کہ اگر دوپہر کو مرغی پکی ہے تو شام کو دال پکے گی۔ پنجاب کے گورنر امیر محمد خان کے بارے میں جنرل جہانداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گورنر صاحب کے جو مہمان آتے تھے ان کی چائے اور کھانے کا بل نواب صاحب اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔
یہ ہے ہماری شاندار تاریخ۔ہماری بنیادوںمیں ہرگز ہرگز کسی قسم کی مالی کرپشن کا دُور دُور تک گذر نہیں۔ یہ وبا بعد کے ادوار میں پھیلی ہے اور ایسی پھیلی ہے کہ سرکاری وسائل اور قومی دولت کو ہر سطح پر لوٹا گیا ہے۔
پاناما لیکس نے پاکستان کو عالمی سطح پر ننگا کردیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بیس کروڑپاکستانی سب کے سب کرپٹ ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے ترجمان یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کا نام شامل نہیں۔ یہ بھی کیسے فخر کی بات ہے۔ اس سے زیادہ ذلت اور کیا ہوگی کہ آپ نے اپنی نابالغ اولاد کے نام پر آف شور کمپنیاں بنوائیں اور اپنا نام سامنے نہیں آنے دیا۔ اس سے شفافیت اور ایمانداری کا تصور کیسے بچایا جاسکے گا۔حزب اختلاف والوں کی ضد ہے کہ ”کرپٹ وزیراعظم“ کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ملکی قرضے ہڑپ کر جانے والوں کا احتساب مﺅخر کردیا جائے۔ اس ملک کو کیا بنا دیا۔ یہاں مقابلہ ”کرپشن“ میں ہورہا ہے ۔ایمانداری میں نہیں۔ یعنی چھوٹے اور بڑے چور کی لڑائی ہے چوری بذات خود قابل قبول ہوچکی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو کرپشن کے کینسر سے بچا لیں تو پھر ہمیں تاریخ پاکستان کو پھر سے پڑھنا اور پڑھانا ہوگا۔ ہمیں تحریک پاکستان کے ایماندار اور صاف کردار کے رہنماﺅں کی سرگزشت سامنے لانی ہوگی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کرپشن کی فصل وقتی ہے۔ ہمیں ایمانداری کے پودے کی دیکھ بھال کرنی ہے تاکہ ہمیں عزت کا میٹھا پھل حاصل ہوسکے۔پاکستان کی بنیادوں میں کرپشن نہیں ایمانداری ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply