May
05
|
Click here to View Printed Statement
انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ضرورت مندوں‘ یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا ہے۔قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرکے آخرت کا سامان تیار کرو۔سورة الحدید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے‘
”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاﺅ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب(امین) بنایا ہے“۔
اللہ کی رضا کے لئے ضرورتمندوں کی ضروریات کو پوراکرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔
خرچ کرنے کا انداز مختلف ہوسکتا ہے۔ ظاہری اور باطنی طور پر انفاق کرنے کا حکم ہےِ۔یہاں ایک باریک نکتہ سامنے آتا ہے کہ ظاہری طور پر انفاق کرنے یا انفاق کو ظاہر کرنے کی بھی کچھ شرائط ہیں۔آپ اگر ایک ہسپتال بنوا رہے ہیں تو یہ ظاہری انفاق ہے ۔اس سے کسی ضرورت مند کی عزت نفس مجروح ہونے کا اندیشہ نہیں ہے ۔ ایسے کسی فلاحی اور رفاعی پراجیکٹ کے حوالے سے اگر تشہیر کا پہلو نکل رہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر کسی بیوہ یا یتیم کی مدد ہورہی ہے اور کسی طرح کا امدادی سامان تقسیم کرنا ہو تو پھر فوٹو سیشن بہت ہی معیوب لگتا ہے۔ اسلامی معاشروں میں صدیوں سے ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری ہوتی رہی ہیں اور اکثر مخیر لوگ چُھپ چُھپا کر یہ مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ ”لینے والے کو دینے والے ہاتھ کا پتہ نہ چلے“ اس احتیاط کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے لیکن جب سے این جی اوز سامنے آئی ہیں اور نمائش کا کلچر فروغ پایا ہے تب سے ضرورت مندوں ‘ بیواﺅں اور یتیموں کو تشہیر کا سستا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔اخبارات دیکھیں‘ چینلز کے سامنے بیٹھ جائیں ہر طرف ایسی تصویروں اور رپورٹوں کی بھرمار ہوتی ہے۔آٹے کا تھیلہ دیتے وقت تصویر ‘گھی کا ڈبہ دیتے وقت تصویر‘ رقم کا لفافہ دیتے وقت تصویر۔غرض مقصد اپنی تصویر بنوانا اور ذاتی تشہیر کرنا ہے نہ کہ ضرورتمندوں کی دادرسی کرنا ہے۔ عزت نفس قدم قدم پر مجروح کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش ضرورت مند اپنی ضرورت کا اظہار ہی نہیں کرپاتے مبادا کے خیرات کرنے والے ہاتھ کیمرے لے کر گھروں میں گھس آئیں۔ روتی بچیوں کی تصویریں بنائیں اور بھوک سے نڈھال ماں کے بیانات ریکارڈ کریں۔
سب سے ظلم اس وقت ہوتا ہے جب ضرورت مندوں کی طرف سے مخیرخواتین و حضرات یا ادروں کا شکریہ ادا کیا جارہا ہوتا ہے۔ اسلام میں خیرات کے پیچھے صرف ایک ہی جذبہ کارفرما ہونا چاہیے اور وہ فقط اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جب مقصد اللہ کی رضا ہو تو پھر تشہیر کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ اور وہ دلوں کے بھید جانتا اور نیتوں کو بھانپ لیتا ہے۔
جب میڈیا ایک کلچر کو فروغ دے رہا ہو تو بہت مشکل ہے کہ اس تصویری اور تشہیری عذاب سے معاشرے کو نجات دلائی جاسکے۔لیکن اب بھی ایسے صالح افراد اور نیک تنظیمیں موجود ہیں جو ضرورت مندوں کی ضرورتیں تو پورا کرتی ہیں لیکن ضرورت مندوں کا تماشا نہیں لگاتیں۔
ایک ایسا ہی قابل تقلید اور مظاہرہ پھالیہ میں منعقدہ مغل ویلفیئر کنونشن میں دیکھنے کو ملا۔ تنظیم مغلیہ پھالیہ کی دعوت پر مجھے بھی بلایا گیا تھا۔ ایک بڑے پنڈال کے عقب میں جہیز کا سامان‘ سلائی مشینیں اور بجلی کے پنکھے طویل قطار میں سجائے گئے تھے۔ بتایا گیا تھا کہ یہ سامان ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ضرورت مندوں میں زیادہ تر غریب اور بیوا خواتین شامل تھیں۔ کنونشن کے منتظمین نے مستحق افراد کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ اپنی سکروٹنی کمیٹی کے ذریعے ضرورت مندوں کا تعین پہلے سے کر لیا تھا۔ ان کی فہرست تیار تھی اور کیا چیز کس کو دینی ہے یہ بھی طے تھا۔ لیکن تنظیم کے سیکرٹری انفارمیشن مرزا قیصر فاروق نے بتایا کہ سامان کی تقسیم کی تصاویر نہیں بنیں گی۔ بلکہ فہرست میں درج نام بھی ظاہر نہیں کئے جائیں گے تاکہ کسی ضرورتمند کا دل نہ دُکھے۔
مجھے یقین ہے کہ تنظیم مغلیہ کے اس قدام سے لوگوں کے دلوں میں خیرات کرنے کا جذبہ مزید بڑھا ہوگا۔ اور جو شہرت تصویر کے ذریعے حاصل ہونی تھی اس سے کہیں زیادہ نیک نامی ملی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ہمیں ظاہری نمائش سے بچائے تاکہ ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کے حقیقی مقاصد حاصل ہوسکیں۔