May
06
|
Click here to View Printed Statement
نفرت کا کاروبار کرنے والوں کی دنیا میں کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ تعصب اور تحقیر کے خمیر سے بنے ہوئے امریکی صدارت کے لئے ریپلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممکنہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نفرت انگیز سوچ کے سبب وقتی طور پر اپنے حریف ریپلکن امیدواروں پر سبقت لے گئے ہیں۔انہوں نے اسلام‘ مسلمانوں حتی کہ عیسائیوں کے خلاف مسلسل بدزبانی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ اُن کی سوچ کو معتدل امریکی حلقے شیطانی سوچ قرار دے چُکے ہیں۔ اُن کے الفاظ کو غلیظ الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امریکی صدر اُوبامہ نے اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کا صدر نہیں ہوسکتا۔ اس شخص نے امریکہ کا امیج تباہ کردیا ہے اور اگر یہ صدر بننے میں کامیاب ہوگیا تو دُنیا میں امریکہ کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز پہلے پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کے حوالے سے بھی ایک ”تڑی“ لگائی تھی۔ اس منہ پھٹ امریکی صدارتی امیدوار نے کہا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر پاکستان کو حُکم دے گا کہ آفریدی کو ہمارے حوالے کردو اور پاکستان کو ایسا ہی کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان امریکی امداد پر پل رہا ہے۔
خیال تھا کہ پاکستان کی حکومت اس بے عزتی پر بھی خاموش رہے گی اور وزارت خارجہ بھی آئیں بائیں شائیں کرکے چُپ سادھ لے گی لیکن توقعات کے برخلاف وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ٹرمپ کی ایسی ٹھکائی اور دھلائی کی کہ سانحہ ایبٹ آباد سے دُکھے ہوئے دلوں کے اندر زندگی کی حرارت محسوس ہونے لگی۔چوہدری نثار نے سیدھے لفظوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ پاکستان امریکہ کی کالونی نہیں ہے۔ٹرمپ کو بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔ اگر وہ امریکی صدر بن بھی گئے تو شکیل آفریدی کی رہائی کا فیصلہ پاکستانی عدالتیں کریں گی نہ کہ امریکی صدر۔چوہدری نثار نے امریکی امداد کو ”مونگ پھلی“ کہہ کر امریکیوں کو کھری کھری سنا ڈالیں۔ وزیر داخلہ کے اس بیان پر قوم کے اندر ایک وقتی خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ شکر ہے ہماری وزارت خارجہ جسے ”فارن منسٹری“ کی بجائے ”فارنر منسٹری“ کی پھبتی سہنا پڑتی ہے اُس نے وزیر داخلہ کے جاندار بیان کی کاٹ کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔
امریکی کانگریس میں بھارتی لابی انتہائی مﺅثر ہے۔امریکی کانگریس نے پاکستان کو ملنے والی امداد روک دی ہے اور خصوصاً پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیارے بیچنے کا وعدہ کیا تھا اسے بھی تعطل کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔پاکستان سے کہا گیا ہے کہ طیاروں کو خریدنا ہے تو پوری کی پوری رقم اد کرو۔ پاکستان کی دفاعی ضروریات خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکیوں نے خود ان طیاروں کی فراہمی کو ضروری قرار دیا تھا۔ اسی احساس کے تحت ہی طیاروں کی ستر فیصد رقم امریکہ نے قرض کے طور پر فراہم کرنا تھی۔ بھارتی لابی نے اپنا کام دکھا دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس لابی کے سربراہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
پاکستان نے اس لابی کو بے اثر کرنے کے لئے ترپ کا پتہ پھینکا۔پاکستان نے امریکیوں کو بتا دیا کہ وہ یہ طیارے چین یا روس سے حاصل کرے گا۔ اس اعلان کے بعد امریکی حکومت کے ماتھے پر پسینے پھوٹنے لگے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے بہ صد اصرار یہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بار بار یہ بات دہرائی کہ امریکہ ہر حال میں پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر رکھنا چاہتا ہے۔
پاک امریکہ تعلقات تیزی کے ساتھ نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔امریکی عوام کو سوچنا ہوگا کہ اگر بھارتی لابی کی سازش کا شکار ہو کر انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے کسی فتنہ پرور اور نفرت فروش شخص کو اپنا صدر بنا ڈالا تو دنیا میں ایک نہیں دو مودی ملکر خانہ جنگیاں شروع کرا دیںگے۔پاکستان تو پہلے ہی حالت جنگ میں ہے‘امریکہ بھی اس آگ سے بچ نہ سکے گا۔