Oct
20
|
Click here to View Printed Statement
ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اُڑی پر حملے کے بعد سفارتی محاذ پر جس برق رفتاری کا مظاہرہ ہمیں کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکا۔ اور اس سست روی کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے۔سارک کا پلیٹ فارم بھارت نے عملاً ہتھیا لیا ہے۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کی بات چھوڑیے۔سری لنکا اور نیپال جیسے ممالک بھی پاکستان کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مجبوراًپاکستان کو بطور میزبان سارک کانفرنس ملتوی کرنا پڑی۔ یہ ایک سفارتی شکست ہے۔ بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا خوب تماشا لگا رکھاہے۔ امریکہ تو بھارت کی بلائیں لیتے تھکتا نہیں ہے۔اب روس کے صدر نے بھارت جاکر اربوں ڈالر کے معاہدے کر ڈالے ہیں ۔ اگر چین ہماری مدد کو نہ آتا تو برکس کے اجلاس سے مزید اینٹیں برسنے کا امکان تھا ۔ یہ بات بھی ہمارے سامنے ہے کہ بھارت نے مبینہ ”سرجیکل سٹرائیکس”کا ڈرامہ کرنے سے پہلے ہمارے برادر اسلامی ممالک کو بھی اعتماد میں لیا تھا۔ایک خبر کے مطابق اس حوالے سے سعودی عرب سے مودی سرکار نے پیشگی رابط کیا تھا۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سعودی عرب کے دوستوں نے ہمیں اس ڈرامے کی اطلاع دینا مناسب سمجھایا نہیں۔سارک ممالک میں سے افغانستان بھارت کا طفیلی ملک ہے۔ بنگلہ دیش ایک مسلمان ملک ہے لیکن وہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہوچکا ہے۔ جب بنگلہ دیشی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ وہ پاک بھارت کشیدگی میں کس کا ساتھ دیں گے تو جواب تھا ”ہم نے پاکستان کو 71ء میں شکست دی تھی’ ہم کسی صورت ایک دشمن کا ساتھ نہیں دے سکتے”۔ہمسایہ ممالک میں ایران ہے۔ ایران نے ابتداء میں کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ دینے کی بات کی لیکن ہماری سرد مہری کے سبب وہ بھی محتاط ہوگیا۔آج ہماری تنہائی کا معاملہ یہ ہے کہ صرف چین ہمارے ساتھ کھل کر کھڑا ہے۔ہم نے ہر کام چین پر چھوڑ دیا ہے اور خود خارجی محاذ پر کچھ کرنے کو تیار نہیں ۔ چین کب تک ہماری کوتاہیوں پر پردے ڈالتا رہے گا۔ مفادات بدلتے رہتے ہیں اور یہ کوئی صدیوںکی نہیں برسوں کی بات ہوتی ہے۔
گزشتہ ماہ راقم کو ایرانی سفیر عالی جناب مہدی ہنردوست کی طرف سے ملاقات کے لئے دعوت موصول ہوئی۔یہ دو گھنٹے کی طویل ملاقات تھی۔سفیر محترم کے ساتھ کونسلر جناب مہدی عابدینی بھی موجود تھے۔ پاک ایران اقتصادی روابط پر گفتگو ہوئی۔ میرے ادارے” پاکستان اکانومی واچ ”کی حکومت پاکستان کے لئے ہمیشہ سے یہ سفارشات رہی ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان فری ٹریڈ کا معاہدہ ہونا چاہیے۔ طویل بات چیت میں میں نے یہ تاثر لیا کہ ایرانی بھائیوں کو ہم سے شکایات ہیں۔ہم نے امریکی اتحادی بن کر ایران کے لئے بڑی مشکلات پیدا کی ہیں۔امریکی دبائو پر ہی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ آج تک سردخانے میں پڑا ہوا ہے۔ ایران نے متبادل ذرائع کے طور پر ہی چاہ بہار پورٹ کا ٹھیکہ بھارت کو دیا ہے۔ایرانی سفیر کے ساتھ جو متفقہ نکات سامنے آئے وہ قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں انہیں دھرانے کی ضرورت نہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ایران نے پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی جو خواہش کی اس کا پاکستان کی طرف سے مثبت جواب ملا۔ یہ بھی پاکستان کے لئے کسی خوشخبری سے کم نہیں کہ بھارت کی طرف سے چاہ بہار کے حوالے سے ابھی تک کوئی عملی کام شروع نہیں ہوسکا۔ ہم سارک کے معاملے میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اب گریٹر سارک کا تصور سامنے لارہے ہیں۔خیال یہ ہے کہ سارک تنظیم کے دامن کو وسیع کیا جائے۔ اور اس وسعت میں جہاں افغانستان شامل ہے وہیں اس میں ایران ‘ چین ‘ روس اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔ اس تصور کے مصور جناب مشاہد حسین سید ہیں۔اگر ایسا ہوجائے تو ظاہر ہے یہ وسعت پاکستان کی خطے میں پوزیشن کو مضبوط بنائے گی۔لیکن اس تصور کو عملی جامہ پہنانے میں صرف چین ہماری حمایت کرے گا۔ اگر اس معاملے میں ایران سے بات کی جائے اور ایران کو اعتماد میں لیا جائے تو اس نئے سفر پر آگے بڑھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ہمیں بہت تیزی سے اپنی قومی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہے۔لگے بندھے سفارتی تصورات میں ضروری تبدیلیاں لانے کا وقت آچکا ہے۔ نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ۔ہمیں اپنے قریب ترین دوست ایران کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔