Nov
02
|
Click here to View Printed Statement
وہ کونسا شہر تھا جسے کسی گروہ نے سب سے پہلے بندکیا تھا اس سوال پر تاریخ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہماری حالیہ تاریخ میں شہر بند کرنے کے واقعات عراق میں پیش آئے ہیں۔داعش نے کئی کئی ماہ مختلف شہروں کو گھیرا اور شہریوں کو یرغمال بنائے رکھا ہے۔ فاتحین کے دور میں حملہ آور فوجیں کسی شہر کا گھرائو کرتیں’ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل پر پابندی لگاتیں اور اس وقت تک شہر کا محاصرہ جاری رہتا جب کہ شہری بھوک پیاس سے مرنا شروع نہ ہوجاتے ۔ اس کے نتیجے میں بادشاہ کے خلاف بغاوت پھیل جاتی اور باغی عوام یا فوج کا کوئی حصہ شہر کے دروازے کھول دیتا۔ اس دور میں شہر کے اردگرد فصیلیں ہوتی تھیں۔ فصیلوں پر چوبرجیاں اور چوبرجیوں میں تیر بردار محافظ مستعد کھڑے ہوتے تھے۔کشت و خون ہوتا اور شہر تاراج ہو جاتے ۔
فصیلوں کے اندر گھرے ہوئے شہر اب شہری وسعتوں میں سما گئے ہیں ۔ شہر پھیل گئے اور غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔اب کسی بھی حملہ آور کو کسی شہر میں گھسنے اور اسے بند کرنے سے روکنے کے لئے داخلی راستوں کو سیل کرنا پڑتا ہے ۔ شہر کی انتظامیہ کو حرکت دی جاتی ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یلغار کرنے والوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔
طالبان نُما گروہ ہوں تو انہیں روکنا آسان کام نہیں ہوتا۔ سوات کو آزاد کرانے میں پولیس ناکام ہوگئی تو فوج کو طویل جنگ لڑنا پڑی تھی ۔
کراچی میں الطاف حسین نے شہر کو متعدد بار بند کروایا بالآخر وہاں بھی ریاست کو فوج اُتارنا پڑی ۔ خونی آپریشن کرنے پڑے تب جاکر شہر کھلا اور شہری آزاد ہوئے۔ تحریک انصاف کوئی شدت پسند یا مسلح گروہ نہیں بلکہ مُلک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے جس کی ایک اہم صوبے میںحکومت بھی قائم ہے۔اگر کوئی جمہوری پارٹی الیکشن سے ماوراء اقدامات کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے اس کی سوچ اور طالبان کی سوچ میں کوئی فرق نہیں رہتا۔طالبانی سوچ میں چند لوگ خودکش حملہ آور بن کر شہری زندگی کو تہس نہس کرسکتے ہیں جبکہ طالبانی سوچ کی حامل کوئی سیاسی پارٹی یہی کام ہجوم جمع کرکے شہریوں کی آزادی سلب کرسکتی ہے۔ پُرامن احتجاج واقعی جمہوری حق ہونا چاہیے لیکن جن ملکوں کی جمہوریت کا حوالہ دیا جاتا ہے وہاں شہر بند کر دینے کے اعلانات نہیں ہوتے بلکہ ایک مخصوص جگہ پر اکٹھے ہو کر احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے۔
عمران خان نے پاکستانی عوام کے ایک حصے کو سیاسی طور پر متحرک ضرور کردیا ہے لیکن اپنے پیروکاروں کی کوئی سیاسی تربیت نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ خود عمران خان کبھی بھی سیاستدان نہیں رہے۔وہ ایک کھلاڑی تھے’خوب عیاشی کی’ شہرت کمائی اور ”پلے بوائے” کے طور پر مشہور ہوئے۔ اُن کی ازدواجی زندگی میں پے در پے ناکامیاں آئیں اور آج بھی وہ اپنی اولاد سے مہینوں مل نہیں پاتے۔اُن کے اندر کے اس خلاء نے انہیں سیکھنے کا بہت کم موقع فراہم کیا ہے۔ انہیں شائد یہ بھی احساس نہیں کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے چاہنے والوں کے لئے ”سیاسی فلسفہ ” بن رہے ہیں۔انہوں نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کرکے اسلام آباد کے شہریوں پر خوف کی ایک تلوار لٹکا دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں جج صاحب نے شہریوں کے حقوق کا تحفظ پیش نظر رکھتے ہوئے شہر بند نہ کرنے کا حکم سنایا ۔ حکومت نے عدالت عالیہ کے فیصلے کا احترام میں ”شرپسندوں ” کی خوب گوشمالی کی ۔ لیکن میڈیا کی تنقید سے گھبرا کر بہت سی گرفتاریاں نہیں کی گئیں جس سے شہریوں کو تشویش ہے ۔ میڈیا کا کام تنقید ہے۔ ہر کام میڈیا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نہیں کہا جاسکتا۔ جڑواں شہروں کے پچاس لاکھ شہری پہلے ہی بہت ستائے ہوئے ہیں۔اُن کی زندگی کو آسودہ رکھنے اور شہروں کو کھلا رکھنے کے لئے اگر چند سو لوگوں کو جیل بھیجنا پڑے تو کوئی مہنگا سودا نہیں۔ شہر بند ہونے کا مطلب زندگی کی بندش ہے۔ عمران خان کو اس معاملے پر کئی بار سوچنا چاہیے۔ وہ بے گناہ شہریوں سے اپنا امن غارت کرنے کی قربانی مانگتے ہیں ۔وہ خود اپنی انا کو قربان کر دیں اور جب احتاج ریکارڈ کرانا ہو تو شہر سے باہر کسی کھلے میدان میں جلسہ کرکے صحت مند رسم کی داغ بیل ڈالیں !۔