Nov
10
|
Click here to View Printed Statement
اس دور کا سب سے سنگین فکری انتشار یہ ہے کہ ہر طبقہ اپنے حقوق کی بات تو کرتا ہے لیکن فرائض کی بات سے بدکتا ہے ۔ ہم جو کام کرتے ہیں اسے کے نتائج کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہئے ۔ باقی شعبوں تک تو یہ احساس کسی نہ کسی طور پایا جاتا ہے لیکن میڈیا شائد وہ واحد شعبہ بن گیا ہے جس کو آزادی ہے کہ وہ جو چاہے لکھے ، چھاپے یا دکھائے لیکن وہ اپنی کسی بھی خبر ، تصویر یا فوٹیج کے منفی نتائج کی ذمہ داری لینے پر تیا ر نہیں ہے ۔ اگر کہیںسے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی آواز اٹھتی ہے تو میڈیا تنظیمیں اور صحافتی انجمنیں واویلا مچانا شروع کر دیتی ہیں کہ یہ آزادی صحافت پر قدغن ہے ۔ ایسا ہی ایک واویلا پریس کونسل آف پاکستان نے مچایا ہے ۔ اس کونسل کا کہنا ہے کہ ڈان کی خبر کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کو، اپنی تحقیقات کے دوران معلومات کے ذرائع سامنے لانے کے لیے اصرار نہیں کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہا گیا کہ حکومتی تحقیقاتی کمیٹی کو اخبار یا اس کے عملے کے خلاف کسی کارروائی کے لیے اصرار بھی نہیں کرنا چاہیے۔اجلاس میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے معاملات پریس کونسل آف پاکستان کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور اگر حکومت کو خبر کے متعلق کوئی شکایت تھی تو معاملے کو کونسل کے سامنے رکھا جانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے معاملہ کونسل کو نہیں بھیجا۔
اجلاس میں کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد صلاح الدین مینگالن، مجیب الرحمٰن شامی، قاضی اسد عابد، عامر محمود، وامق زبیری، علی قاضی، انور ساجدی، ابراہیم خان، ڈاکٹر شاہ جہاں سید، اقبال جعفری، خورشید تنویر، ناصر زیدی اور کونسل کے قائم مقام رجسٹرار اعجاز حسین بَقری نے اجلاس میں شرکت کی۔ یاد رہے کہ پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل ہیں، جبکہ اجلاس کے دیگر شرکا میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے سینئر نمائندے اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نمائندے موجود تھے ۔
چھ اکتوبر کو شائع ہونے والی ڈان اخبار کی خبر گزشتہ ماہ سے سول ملٹری تعلقات میں تناؤ کا سبب بنی ہوئی ہے، خبر شائع ہونے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تین دفعہ اس خبر کی تردید جاری کی گئی۔دوسری جانب پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کی خبر میڈیا کو لیک ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
29 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف نے اہم خبر کے حوالے سے کوتاہی برتنے پر پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا تھا ۔چند روز قبل حکومت نے ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے جس نے اپنی تحقیقات بھی شروع کر رکھی ہیں ۔
قبل ازیں پاک فوج کے سربراہ راحیل شریف کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس سے متعلق جھوٹی اور من گھڑت خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیا گیاتھا ۔پواضح رہے کہ ڈان کے صحافی سیرل المیڈا نے 3 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس کے حوالے سے خبر دی تھی کہ حکومت نے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کیخلات موثر کاروائی نہ کرنے پر پاکستان عالمی سطح پر تیزی سے تنہا ہورہا ہے۔
اس خبر کو ہندوستان کے میڈیا نے خوب اچھالا اور اسے سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی کے حوالے سے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ۔
اب جبکہ اس خبر لیک کے حوالے سے تحقیقات شروع ہوچکی ہیں تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش سمجھ سے بالاتر ہے ۔ فرض کیا کہ ایجنسیوں کی کوشش کے باوجود اس خبر کو لیک کروانے میں حکومت یا وزیر اعظم یا ان کے کسی معتمد کا کوئی قصور ثابت نہ ہوسکے تو پھر یہ کیسے پتہ چلے گا کہ رپورٹر کو کس نے خبر دی ہے جس کی بنیاد پر اس نے پاکستان کے اندر داخلی انتشار کو ہوا دینے اور خارجی سطح پر بدنام کرنے کی شازش کی ہے ۔ کیا کوئی وحی نازل ہوگی ؟کیا کوئی خواب آئے گاجس سے یہ عقدہ وا ہوسکے گا ۔ ظاہر ہے کہ اخبار کے رپورٹر کو علم ہوگا کہ اسے کس نے فیڈ کیا تھا یا ایڈیٹر کو جانتا ہوگا ۔ قومی نوعیت کے اس اشو کو حل کرنے کیلئے یہ رپورٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو اس ذہنی کرب سے نکالے ۔ اخبار کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایسی شرانگیز خبر سے اجتناب کرتا ۔ اس خبر کا لیک ہونا اگر سیکیورٹی بریچ ہے تو اس کا چھاپنا اس سے بڑا جرم ہے ۔ لیکن اب پر یس کونسل کی عجیب منظق ہے کہ تحقیقاتی کمشن کی ہدائت پر حکومت نہ تو رپورٹر کو اپنا ذریعہ بتانے پر مجبور کرسکتی ہے نہ ہی اخبار سے پوچھ گچھ کرسکتی ہے ۔ یہ کیسی صحافت ہے جو سچ تک پہنچنے میں روڑے اٹکا رہی ہے ۔پریس کونسل پاکستان کے صحافیوں کا ادارہ ہے ، ہندوستان کا نہیں ۔ اس میں شامل تمام ممبران سب سے پہلے پاکستانی ہیں ۔ اگر ان کے اندر کی پاکستانیت مر گئی ہے تو مسلمان تو ہیں ۔ ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ حق کی گواہی دینے والا بنے نہ کہ حق کو چھپانے والوں کے ساتھ کھڑا ہو۔ میں پریس کونسل کے تمام ممبران کو قران کا یہ حکم یاد کرانے کا فریضة نبھا رہا ہوں کہ اے اہل صحافت آو حق کی گواہی دینے والے بن جاؤ!