Feb
03
|
Click here to View Printed Statement
ہر عام انتخابات کے موقع پر کروڑوں رائے دہندگان اپنے ووٹ کا آزادانہ اور بے باکانہ استعمال کرکے آئندہ 5 سال کے لئے نئی پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لئے اپنے گھروں سے جوق در جوق نکلتے’اپنے حلقوں میں قائم پاکستان الیکشن کمیشن کے باضابطہ پولنگ سٹیشنوں تک پہنچتے اور اپنا ووٹ تئیں جس امیدوار کو اہل سمجھتے ہیں دیتے ہیں۔ووٹ بلاشبہ ایک قیمتی امانت ہے ۔ یاد رہے کہ امانت کے بارے میں قرآنی حکم یہ ہے :”بے شک اللہ تمہیں اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امانتیں اُن ک اہل لوگوں تک لوٹا دو” یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ووٹ اقتدار’اختیار’قوت’طاقت اور حکومت کا نقش گر اور عکاس ہوتا ہے۔ووٹ محض کاغذ کی ایک پرچی نہیں ہوتا کہ جس پر کوئی بھی ووٹر کسی بھی امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگا کر اُسے بیلٹ بکس میں ڈال آتا ہے۔
انتخابات کے بعد عوامی شہری اور سیاسی حلقوں کی نگاہیں حکومت سازی کے جمہوری عمل پر مرکوز ہوتی ہیں۔ جمہوریت کی مکمل بحالی کی جانب پشرفت کا خواب اسی صورت پوراہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی اہمت اور افادیت کو انتخابی نتائج کے تناظر میں کشادہ دلی کے ساتھ تسلیم کریں۔جمہوریت کی حامی قوتیں ہر دور میں انتخابات کے بعد اقتدار کی پر امن منتقلی کے لئے راہ ہموار کرنا اپنا فرض منصبی جانتی ہیں۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے بعد اصل مرحلہ حکومت سازی کا ہوتا ہے۔ عوامی حلقوں کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مرحلہ بھی بخیروعافیت طے پاجائے تاکہ ملک میں ہم آہنگی کو فروغ ملے اور طالع آزما اور مہم جو عناصر جو محاذ آرائی’ توڑپھوڑ اور گھیرائو جلائو کی تخریبی سیاست کو اپنا مطمح نظر بنائے ہوئے ہیں’ ان کے مذموم عزائم کی تکمیل نہ ہوسکے۔حکومت سازی کے مرحلے کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تما محب وطن سیاسی قوتیں سر جوڑ کر مکالمے اور مشاورت کی میز پر بیٹھیں اور محاذ آرائی کی سیاست سے کلی طور پر اجتناب کو اپنا شعار بنانے کا عزم لے کر اٹھیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت سازی کے لئے مفاہمت کا عمل ناگزیر ہوتا ہے۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی کے مصداق اس ضمن میں روح جمہوریت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی قابل ذکر سیاسی جماعتیں مفاہمت کی سیاست کو اپنا شعار بنائیں۔انہیں مفاہمت اور مکالمے کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہیں۔ قومی اسمبلی میں بالتدریج زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعتوں کے مابین مکالمہ ہی کے ذریعے انتقال اقتدار کے جمہوری عمل کی جلد تکمیل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ جمہوریت کاقافلہ اسی محفوظ راستہ پر چل کر مضبوط اور توانا تر پاکستان کی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اس موقع پر انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعتوں کا فرض منصبی ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیش پا افتادہ مفادات کو بالائق طاق رکھتے ہوئے مفاہمت کی فضاء اور ماحول کو مزید خوشگوار اور سازگار بنائیں۔ذاتیات اور مفادات کے خول کی قید سے رہائی پانے کے بعد ہی محب وطن سیاسی قوتیں جمہوری سفر کو بلاروک ٹوک جاری رکھنے کی راہیں کشادہ کرسکتی ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ فاتح جماعت کی حکومت اپنا آئینی دورانیہ پورا کرے۔ وہ کوشاں ہوتے ہیں کہ تمام مسائل پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کریں’وہ چاہتے ہیں کہ مضبوط اور خودمختارپارلیمنٹ ہو جہاں عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلے ہوں۔اس سچ کو مانے بناء چارہ نہیں کہ سیاسی جماعتیں اکٹھی نہ ہوں تو ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔
مہذب معاشروں میں حکمران جماعت اہم قومی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے یہی عمدہ روایت قائم کرتی ہے کہ بلاامتیاز تمام جمہوری طاقتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوتی ہے یا نہیں۔موجودہ حساس صورتحال میں جمہوری سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کا پیدا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ انہیں احساس ہوناچاہیے کہ اگر مختلف امور ومعاملات پر مفاہمت پیدا نہ ہوئی تو جمہوریت کسی حادثے سے بھی دوچار ہوسکتی ہے۔حالات کو ڈی ٹریک ہونے سے بچانے کے لئے جمہوری اور سیاسی قوتیں ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کرتی ہیں۔یہی وہ واحد اقدام ہے جس کے ذریعے وطن عزیز میں سیاسی استحکام آئے گااور جمہوریت کو فروغ ملے گا۔سیاسی جماعتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ سیاسی استحکام اور جمہوریت کے فروغ کے لئے مل کر کا م کریں۔ سیاسی قیادتوں اور جماعتوں کا نصب العین ہمیشہ پارلیمنٹ’آئین اور تمام اداروں کو مضبوط بنان ہونا چاہیے۔ یہ تو ہر کسی کے علم میں متنازع ترین امور بھی بات چیت ہی کے ذریعے طے کئے جاسکتے ہیں۔ اگر سیاستدان بات چیت کے ذریعے متنازع امور طے کر لیں تو پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی کے راستے میں کوئی بھی درانداز قوت رکاوٹیں کھڑی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے بنیادی اصولوں پر اتفاق رائے ہونا ناگزیر ہے۔
اکثریتی عددی قوت رکھنے والی حکمران جماعت اگر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اسے پاکستانی عوام کی امنگوں اور نیک تمنائوں کے ترازو میں تول کر یہ پیغام دے کہ اس کی حکومت کا ہر فیصلہ اور اقدام انتخابی وعدوںاور آئین کے تقاضوں کے مطابق ہے اور وہ ہر لمحہ جمہور کی آواز اور رائے کی ترجمان ہے تو کوئی بھی تخریبی قوت اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ اس میں کوئی شک باقی نہیں رہنا چاہیے کہ آنے والے ایام میں پاکستان کی تاریخ کے انتہائی اہم اورحساس ترین ایام ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کی موجودہ بالغ نظر حکمران قیادت کو ہر فیصلہ انتہائی احتیاط کے ساتھ کرنا ہوگا۔ انہیں ہر فیصلہ کرنے سے قبل انتہائی حاضردماغی اور استقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔آخرمیں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے گزارش ہے کہ ایک تجربہ کار ‘آزمودہ اور جہاندیدہ سیاستدان کی حیثیت سے موجودہ کشیدہ حالا ت میں حسب روایت صبروضبط کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں۔