Oct
31
|
Click here to View Printed Statment
تعریفی اسناد‘امتیازی اعزازات اور سنہری تمغات ہر کامیاب انسان کا حق بھی ہے اور خواہش بھی۔ ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ زندگی کے کسی شعبے میں جب بھی کوئی نمایاں کارنامہ سرانجام دے تو سماج اس کو سراہائے‘ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اس کے سینے پر تمغے سجائے۔ مردم شناس سوسائٹی کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ اچھائی اور نیکی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ہم روشن راہوں کے مسافروں کو ان کے حصے کی پذیرائی دینے میں کنجوسی نہ کریں۔
صالح لوگوں میں سے عظیم ترین وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی کامیابی کو کبھی ذاتی تصور نہیں کرتے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ استنبول شہر کے وسیع وعریض ہال میں عظیم الشان تقریب کے اندر پاکستان کے الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال کو عزت مآب پرنس طلال کی طرف سے یو این او کا جو ایوارڈ دیاگیا وہ خالصتاً اس ٹرسٹ کے صدر جنرل (ر) جہانداد خان کی شخصیت کو دیا گیا ہے۔”اگفنڈ“ کے نام سے یہ وہی ایوارڈ ہے جو بنگلہ دیش کے عالمی شہرت یافتہ بینکار محمد یونس کو بھی دیاگیاہے۔اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ ملکر ”عرب گلف فنڈ“ کے منتظمین نے دو برس قبل ایسے لوگوں کا کھوج لگایا جنہوں نے انسانی صحت کے حوالے سے کوئی پراجیکٹ شروع کیا‘اسے عالمی معیار کے مطابق چلا کر دکھایا اور اس کے چلتے رہنے کے لئے مالی اور انسانی وسائل کا بہترین نظام بھی وضع کردیا ہو۔ اسے پاکستان کی خوش قسمتی کہیے کہ تمام تر ریسرچ اور سکروٹنی کے بعد پاکستان بھر میں سے ایک ہی نام سامنے آیا اور وہ بے وسیلہ اندھیری آنکھوں میں روشنیاں لانے والے جہانداد خان ہیں۔
جنرل (ر) جہانداد کسی طور بھی اس اعزاز کو اپنی ذات کے حوالے سے مختص کرنے پر تیار نہیں ہیں۔”میری ذات کی کوئی اہمیت نہیں‘ الشفاءٹرسٹ ہسپتال کا ایک خاکروب بھی اس ایوارڈ کا اتنا ہی حقدار ہے جتنا میں ہوں۔ یہ ڈاکٹروں کی محنت کا ثمر ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ الشفاءٹرسٹ کو میں نے کچھ نہیںدیا‘ اس نے مجھے بہت کچھ دیا۔اگر میں یہاں نہ ہوتا تو گھر بیٹھا موت کے فرشتے کا انتظار کررہا ہوتا“ جنرل صاحب نے ”ڈان“اخبار کے رپورٹر کے سامنے اپنے قلبی احساسات بیان کرتے ہوئے کہا۔
میرے کالم نگار دوست بیگ راج نے الشفاءٹرسٹ کو ایسا عالمی ایوارڈ ملنے کی جو وجوہات بتائیں‘میں خود بھی آنکھوں کے اس ہسپتال میں جاکر یہ خوبیاں دیکھ چکا ہوں۔میںنے پہلے بھی اس موضوع پر ایک کالم لکھا تھا اور محترم جنرل (ر)صاحب نے اپنے آفس بلا کر بڑی شفقت سے شکریہ اداکیا تھا۔ اس بڑے آدمی کی ملاقات سے انسان کے اندر امیدیں جاگ اٹھتی ہیں۔
1985ءمیں الشفاءٹرسٹ کی بنیاد رکھی گئی۔پہلا آئی ہسپتال راولپنڈی میں قائم کیا گیا اور اس کے ساتھ ہر صوبے میں ایک معیاری ہسپتال بنانے کا اعلان بھی کیا۔ آج الشفاءٹرسٹ کے چار ہسپتال قائم ہوچکے ہیں۔ سکھر‘کوہاٹ اور مظفرآباد کے ہسپتال دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی ایسے ادارے قائم ہوسکتے ہیں!۔ہر سال پانچ لاکھ لوگوں کی آنکھوں کا مفت علاج۔یہ کہنا آسان ہے لیکن کرنا شائد جہانداد جیسے لوگوں کاہی حوصلہ ہے الشفاءٹرسٹ ہر ہفتے ایک کروڑ روپے خرچ کرتا ہے جس میں سے ساٹھ فیصد عطیاّت ہوتے ہیں۔ اور عطیات اکٹھے کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
میں جنرل (ر) جہانداد کو بوڑھا نہیں کہوں گا۔ بوڑھے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے عزم عمر رسیدہ ہوجائیں۔آنکھوں کو روشنی دینے کے اس سفر پر گزشتہ پچیس برس سے مسلسل چلنے والے اس مسافر کو بوڑھاپا دیکھ کر ہی بھاگ جاتا ہوگا۔ جنرل (ر) صاحب نے اپنی کتاب ”Depart With A Smile“ میں اس نقطے کو اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کی روشنی میں واضح کیا ہے اور خود کو بوڑھا قرار دے کر زندگی کے فرائض سے الگ ہوجانے والوں کے لئے ایک روشن راہ کی نشاندہی بھی کردی ہے۔”انسان کی زندگی کے تین حصے ہیں۔پہلا سیکھو‘ دوسرا کماﺅ اور تیسرا لوٹاﺅ“ جنرل (ر) صاحب کہتے ہیں کہ اس ملک نے لوگوں کو بہت کچھ دیا ہے۔خصوصاً خوشحال اور دولت مند لوگوں پر فرض ہے کہ وہ زندگی کے تیسرے حصے میں اس وطن کو کچھ نہ کچھ واپس ضرور کریں۔ وہ جس قدر لوٹانے میںمصروف ہوں گے اسی قدر جوان رہیں گے۔ اور جب اس دنیا کو چھوڑیں گے تو ان کے ہونٹوں پر اطمینان کی ایک مسکراہٹ ہوگی۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے یہ پہلا ایوارڈ ہے جو پاکستان کے کسی آئی ہسپتال کو ملا ہے۔ یہ پورے پاکستان کا اعزاز ہے۔پاکستانی لوگ عظیم کارنامے سرانجام دینے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ کاش کہ اہل بصیرت اور بصارت موت کے وقت مسکرانے کی خواہش پیدا کر لیں اور الشفاءٹرسٹ جیسے بیسیوں ادارے بنا ڈالیں۔جہانداد خان کی طرح روشنی کا سفیر بننا ہی ہماری لائف مشن اسٹیٹمنٹ ہونی چاہیے!