Mar
27
|
Click here to View Printed Statement
امریکی حکمران بھی عجیب وغریب قسم کے دماغی خلجان میں مبتلا رہتے ہیں۔ امریکہ بہت بڑا ملک ہے۔ باون ریاستیںہیں‘زرخیز زمینیں ہیں‘ بہترین دماغ ہیں۔ اپنے ملک میں رہیں‘ اپنے لوگوںکی صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ کریں اور خود خوبصورت زندگی بسر کریں اور دنیا کو اپنے نظریات اور روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے دیں۔ خدا جانے بیٹھے بٹھائے وہاں کے شہہ دماغوں کو کون سا کیڑا کاٹتا ہے اور ہر دس سال بعد کسی دوسرے ملک پر یلغار کردیتے ہیں۔ اپنے نوجوانوں کا خون بہاتے ہیں‘ اسلحہ پھونکتے ہیں اور لاشیں گراتے‘ ملکوں کو تہس نہس کرتے ہیں۔ جب مرنے مارنے کے عمل سے تھک جاتے ہیں تو پھر باعزت واپسی کے راستے ڈھونڈنے لگتے ہیں بلکہ اکثر ہاتھ باندھ کر ‘منتیں کرکے مجروح ملک سے بھاگ جاتے ہیں۔
آجکل باراک حسین اوبامہ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ ایک بار پھر افغانستان سے ”باعزت واپسی“ کے لئے راہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ کابل میں ایسی حکومت اورایسے کئی کٹھ پتلی حکمران کی تلاش کی جارہی ہے جو طالبان کے ساتھ صلح کرانے میں مددگار ثابت ہو۔ تاکہ کسی نہ کسی طرح امریکی قوم کو بتایا جاسکے کہ چھ برس تک بم برسانے نہتے افغان عوام کو ہلاکت خیزیوں کے جہنم میں جھونکنے اور دنیا بھر میں اپنی فوجی برتری کا مذاق اڑانے کے بعد بالآخر‘ ”فتح مند“ ہو کر امریکی سورما واپس لوٹ رہے ہیں۔ واشنگٹن میں منتظر گرلز فرینڈز فاتح ہیروز کے گلے میںہار ڈال سکیں۔ حزیمت سے بچ نکلنے کی کوئی راہ ہو‘ کوئی ہمراہ ہو!
افغانستان میں امریکہ کی حامی ”موڈریٹ طالبان“ پر مشتمل حکومت کا قیام اور بلگرام اور جلال آباد میں قائم امریکی اڈوں کی حفاظت۔ کوئی یہ ضمانت دے ‘ امریکی آج ہی افغانستان سے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ لیکن یہ ”کارنامہ“ کون سرانجام دے سکتا ہے؟
امریکی انتظایہ اس قدر بے بس ہوچکی ہے کہ وہ مایوسی کے عالم میں اپنی ہر شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتی دکھائی دیتی ہے۔ کبھی پاکستان دہشتگردی کی اس نام نہاد جنگ میں ”فرنٹ اسٹیٹ “ اور نان نیٹو اتحادی کا درجہ پایا تھا آج کل جو امریکی عہدیدار بھی اس دہشتگردی کی جنگ کے حوالے سے لب کشائی کرتا ہے وہ کھلے لفظوں میں پاکستان کو دہشتگردی کا سب سے بڑا مرکز قرار دیتا ہے۔ گویا اب ان کے نزدیک افغانستان میں امریکی فتح کا سارا دارومدار پاکستان کو ”سیدھا“ کرنے پر ہوگیا ہے۔ اندر کھاتے کہا جارہا ہے کہ امریکی ناکامیوں کا اصل سبب پاکستان ہے‘اس کی فوج ہے اور اس کی آئی ایس آئی ہے۔ کبھی بلوچستان میں ”طالبان شوریٰ“ کا نام لیا جاتا ہے‘ کبھی پنجاب میں لشکر طیبہ کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کبھی کراچی کے اردگرد طالبان کے گھیرے کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ پاکستان پر چاروں طرف سے یلغار ہورہی ہے ‘ اورافغانستان میں امریکی شکست کی مکمل ذمہ داری پاکستانی ریاست کے سر تھوپ دی گئی ہے۔
پہلے صدر جنرل پرویز مشرف پر ”ڈبل کراس“ کا الزام لگا کر ان کی پشت پناہی ترک کی گئی اور مشرف حکومت کی جگہ ”جمہوری“ حکومت کے راستے کو صاف کیاگیا۔(ن) لیگ اور پی پی پی…. گویا آگ اور پانی کے ملاپ سے دہشتگردی کی جنگ جیتنے کی امیدیں وابستہ کر لی گئیں ۔ اطلاعات کے مطابق جناب زرداری سے ڈرونز حملوں کی کھلی چھٹی مطلوب تھی‘ سو وہ مل گئی۔اب تو حکومت وقت ان ڈرونز حملوں پر لفظی احتجاج بھی نہیںکرتی ۔ لیکن متواتر حملوں کے باوجود بھی افغانستان کے عوام کی طرف سے لڑی جانے والی آزادی کی جنگ میں کمی کی بجائے تیزی ہی آرہی ہے۔ اس لئے اب شائد امریکی فوجوں کو فاٹا کے علاقوں میں اتارنے کی خواہش چٹکیاں کاٹ رہی ہے۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ پاکستانی ٹروپس کا کنٹرول بھی امریکی کمانڈرز کو دیا جائے تاکہ ہر اول دستوں کے طور پر خود پاکستانی فوج ہی قبائلی عوام پر یلغار کرے اور امریکی کمانڈز صرف تماشا دیکھیں۔
پاک فوج ایسے کسی منصوبے کی راہ میں آ ہنی چٹان بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ جناب زرداری مزید کسی عوامی لانگ مارچ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے خیال کیا گیا ہے کہ کیوں نہ اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے میاںنوازشریف کی سرپرستی شروع کردی جائے!
میاں نوازشریف صاحب اس مسلم کشی میں کیا امریکہ کے قابل اعتماد پارٹنر بن سکیں گے؟۔ذاتی سا خیال ہے کہ میاں صاحب کو ایسے مصنوعی سہاروں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے اور سچ یہ ہے کہ جس پاکستانی پر امریکی اعتماد کا الزام لگے گا‘وہ پاکستانی قوم کا اعتماد کھو دے گا۔ اس لئے کہ ”امریکی اعتماد“ ایک ایسا ”صفر“ ہے جو بڑے بڑے عوامی رہنماﺅں کو ہیرو سے زیرو کردیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جناب میاں صاحب آنے والے دوسالوں میں اس الزام سے بچنے کے لئے کیا ٹھوس اقدامات کرتے ہیں؟