Feb
21
|
Click here to View Printed Statement
کیایہ حقیقت اب کسی سے چھپی رہ گئی ہے کہ آج کل پاکستان چاروں اطراف سے دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف بھارت اس ملک کو عالمی دہشتگرد قرار دلوانے اور دنیا بھر میں اس کے دوستوں کو بدظن کرنے کے لئے باقاعدہ سرد جنگ شروع کرچکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کی حکومت کے اندر چھپے ہوئے پاکستان دشمنوں نے ہمارے صوبہ سرحد میں توڑ پھوڑ کا عمل تیز کررکھا ہے ۔
تیسری طرف امریکہ ابھی تک اپنی اندھی طاقت کے زور پر پاکستان کو میزائلوں سے ادھموا کرچکا ہے۔ اور چوتھی جانب پاکستان کے اندر بعض انتہا پسند گروپوں نے آئے روز بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے داخلی انتشار کو انتہاﺅں تک پہنچا دیا ہے۔ خدا کرے کہ سوات میں نفاذِ عدل کے اعلان پر جلد از جلد عمل درآمد ہو اور امن وامان کی صورتحال بہتر ہوسکے۔ یہ وہ حالات ہیں جن سے ہر پاکستانی بخوبی آگاہ ہے۔ لیکن شائد اس ملک کے سب سے پڑھے لکھے لوگ جان بوجھ کر ناواقف بنے ہوئے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ معزول چیف جسٹس جناب افتخار احمد چوہدری کے ”انکار “ سے بھی مشرف کی حکومت کمزور ہوئی اور سول سوسائٹی کی تحریک بھی جناب افتخار چوہدری کے بروقت اور از خود نوٹسز کے ذریعے ہی ممکن بنی۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جناب آصف علی زرداری نے مری کے اندر جناب میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ عدلیہ کو دو نومبر کی پوزیشن پر بحال کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ اور اس آمر میں بھی کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی ہر آزاد پاکستانی کی خواہش اور ضرورت ہے لیکن بخار میں مبتلا ایک شخص کے سر پر چوٹ آجائے اور خون بہنے لگے‘تو معالج کا فوری کام سب سے پہلے بہتے خون کو روکنا‘ سر پر ٹانکے لگانا ہوگا‘ بخار اتارنا ترجیح نہیں رہے گی۔ لیکن ایسے عالم میں اگر کچھ لوگ اٹھیں‘ اور وہ کہیں کہ نہیں مریض کا پہلے بخار اتارا جائے پھر بہتا خون بند کیا جائے تو ظاہر ہے بخار اترنے سے پہلے مریض جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
پاکستان کی حالت ایسی ہے کہ اس کے جسم پر گہرے زخم آئے ہیں اور پہلا کام ان زخموں سے بہتے خون کو روکنا ہے۔پی سی او عدالت کے سبب چڑھنے والے بخار سے نجات بھی ضروری ہے لیکن پہلے جان بچانے کا اہتمام ہوجائے۔
وکلاءبرادری کی طرف سے یہ ضد کہ وہ مارچ کے وسط میں نہ صرف یہ کہ ملک گیر لانگ مارچ کریں گے بلکہ اسلام آباد آکر غیر معینہ مدت کے لئے دھرنا بھی دیں گے نہ صرف خود وکلاءتحریک کے لئے خودکشی کے مترادف ہوگا بلکہ آزاد عدلیہ کی تحریک کو بھی ہمیشہ کے لئے بریکیں لگ جائیں گی۔ اب تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی پاکستانی صورتحال کی نزاکت کا احساس ہوگیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار احمد نے بجا طور پر وکلاءسے پوچھا کہ آخر وہ لانگ مارچ دھرنے کے ذریعے عدلیہ کو کس طرح بحال کرا لیں گے؟۔ یہ سوال ہر وکیل اور وکلاءتحریک کے ہر رہنماءکو اپنے دماغ میں دھرانا چاہیے۔ اور یہ حقیقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پیپلزپارٹی سے سیاسی وابستگیاں رکھنے والے وکلاءپہلے ہی تحریک سے الگ ہو چکے ہیں‘ اب مسلم لیگ (ن) کے لوگ بھی اس تحریک سے جدا جدا دکھائی دے رہے ہیں۔اب صرف جماعت اسلامی اورعمران خان رہ جائیں گے۔ ایسے عالم میں وکلاءلانگ مارچ کریں گے تو وہ ہجوم اکٹھا نہ کرسکیں گے جو ماضی قریب میں ہوتا رہا ہے۔
خود معزول چیف جسٹس جناب افتخار احمد چوہدری کو آگے بڑھ کر ایک قربانی دینی چاہیے۔ انہیں خود سے اپنے عہدے کو خیرباد کہہ دینا چاہیے ۔اس طرح پہلے سے داخلی اور خارجی محاذوں پر مصروف کار مملکت اسلامیہ کو مزید انتشار سے بچایاجاسکے گ
Click here to View Printed Statment
ا۔