Sep 21

Click here to View Printed Statement

پاک امریکہ تعلقات ایک بار پھر ہچکولے لینے لگے ہیں۔ پاکستان کے اندر امور خارجہ کے ماہرین اور ذرائع ابلاغ کے مراکز رائے کے اعتبار سے دو متضاد حلقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ ایک غالب حلقہ اس خیال کا زبردست حامی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی ”غلامی“ سے فی الفور چھٹکارا حاصل کرکے اپنے دوستوں کا تعین از سر نو کرنا چاہیے۔

اس حلقہ فکر کے نزدیک پاکستان کو اپنا رخ اب ایران‘ چین اور روس کی طرف پھیر دینا چاہیے۔ اس خیال کی وکالت کرنے والے اہل فکر ونظر امریکی حکومتوں کو ”بے وفا“ ”بد عہد“ ”خودغرض“ اور ”ناقابل اعتبار“دوست قرار دیتے ہیں۔1971ءمیں امریکہ کی طرف سے بحری بیڑے کی آمد کی امید‘روس کے خلاف جنگ میں ہر اول ملک کا کردار ادا کرنے پر ملکی قرضہ جات کی معافی‘ روس کی پسپائی کے بعد افغان مہاجرین کی بحالی اور ملک واپسی کے لئے اربوں ڈالرز کی توقع اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نائن الیون کے بعد افغانستان کو تاتخت وتاراج کرنے کے لئے زمینی‘ فضائی اور بحری حدود استعمال کرنے کی سہولت کے بدلے ”دوستی“ کے لازوال رشتے کا ناخوشگوار انجام۔ یہ وہ حوالے ہیں جن کا تذکرہ کرکے امریکہ دشمنی کو فروغ دیا جاتا ہےِ۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی عام پاکستانی خواہ اس کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہے یا وہ خود کو موڈریٹ قرار دیتا ہے وہ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کو بیزاری ہی نہیں حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھتا ہے۔ اسلامی حوالوں سے امریکہ کی طرف سے عراق اور افغانستان پر یلغار نے امریکہ کیخلاف نفرت کو مہیمز لگائی ہے اور قومی اعتبار سے پاکستانی علاقوں پر بغیر پائیلٹ امریکی جہازوں کی طرف سے بار بار کے حملوں نے آج کے امریکہ کو پاکستانی ذہنوں میں ایک ”جارح“ کا روپ دے دیا ہے۔ امریکہ مخالف جذبات کو ”کیش“ کرانا اب وطن عزیز میں ایک کارآمد سیاسی ہتھیار بن چکا ہے۔
پاکستانی کس قدر امریکی حملوں کیخلاف مشتعل ہیں اس کا اندازہ صرف چیف آف آرمی سٹاف کے حالیہ بیانات پر ردعمل کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔”امریکی حملوں کا جواب دیں گے“۔ اس ایک بیان پر مسجدوں کے اندر چیف صاحب کی درازی عمر کے لئے ہزاروں لاکھوں دعائیں مانگی گئیں۔ لوگوں نے اخبارات سے چیف صاحب کی تصویریں کاٹ کر گھروں میں لگا لی ہیں۔ امریکہ مخالف غالب اکثریت میں فاٹا اور سوات کے شدت پسند بھی شامل ہیں اور انہوںنے امریکی حملے کی صورت میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے کے اعلانات کئے ہیں۔سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ اگر آج حکومت امریکہ کیخلاف افغانستان کے اندر حملے کرنے کا اعلان کردے تو طالبان اور شدت پسند حکومت کے دوست بن جائیں گے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر اس وقت پاکستان کے کسی ذمہ دار ادارے یا شخصیت کی طرف سے امریکہ کیخلاف طبل جنگ بجا دیا جائے تو پوری قوم اس ادارے یا شخصیت کی پشت پر ہوگی اور ملکی سیاست کا رخ ایک سو اسی درجے پر تبدیل ہوجائے گا۔
پاک امریکہ تعلقات پر اہل فکر کا دوسرا طبقہ امریکہ کیخلاف جنگ تو دور کی بات وہ امریکی حملوں پر احتجاج کے حق میں بھی نہیں۔اس حلقہ دانش کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان چاروں اطراف سے خطروں میں گھرا ہوا ہےِ۔ اگر اس وقت امریکی حکومت نے بھی پاکستان سے ہاتھ اٹھا لیا تو پھر پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوگا ہی سیاسی طورپر بھی تنہا ہوجائے گا اور ہمارے متوقع دوست ایران‘ چین یا روس بوقت ضرورت ہمارا ہرگز ساتھ نہیں دیں گے بلکہ پاکستان کی بربادی میں مصروف طالبان اور طرح طرح کے شدت پسندوں کی پشت پناہی کرکے پاکستان کوموجودہ حالات سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اہل چین پاکستان کی خاطر کبھی بھی امریکہ کی مخالفت نہیں کریں گے بلکہ چین امریکہ جیسی منڈی کھولنے پر پاکستان کے ”ڈیفالٹ“ کو ترجیح دے گا۔ اس ”حقیقت پسند“ گروہ کو خوف نے آلیا ہے اور اس خوف کی لہریں حکمرانوں کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ فکرکی حدود میں غوطہ زن دونوں گروہ ہی انتہاﺅں کو چھونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ملکوں اور قوموں کے درمیان معاملات اور روابط کی بنیادوں کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ بحث کو طوالت سے بچانے کے لئے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فطرت نے اس زمین کے ذخائر‘ ذہنی صلاحیتوں اور انسانی وسائل کو ہر ملک اور قوم کے لئے یکساں پیدا نہیں کیا۔ اس لئے ہر ملک کو دوسرے ملک کی ضرورت ہے۔ اور یہی وہ ضرورتیں ہیں جن کی بنیاد پر ہر ملک خارجہ تعلقات کا تعین کرتے وقت اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتا ہے۔ ملکوں کے درمیان کوئی مستقل دوستی ہوتی ہے نہ ہی دشمنی۔ محض ”ڈیلز“ ہوتی ہیں اور ”ڈیلز“ کو رشتوں ناطوں کے معصوم ناموں سے موسوم کرنا سراسر جہالت ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کو دوستی یا دشمنی کی بنیاد پر نہیں اپنی ضرورتوں کی بنیاد پر جانچا جانا چاہیے۔ اگر پاکستان واقعتا امریکی”غلامی“ سے نجات پا کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے تو یہ کام بڑے احسن انداز میں کر لیا جانا چاہیے۔ ایک سادہ سا ”تھینک یو‘ نومور“ کہہ کر ترک تعلقات کا بگل بجا دینا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بڑے صبر اور شکر کے ساتھ اچھے وقتوں کا انتظار کرنا چاہیے۔ اپنے مطالبات کو جذباتی انداز میں نہیں کاروباری انداز میں منوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اصل مسئلہ امریکہ سے دوستی یا دشمنی نہیں دو ضرورتمند ملکوں کے درمیان تعلقات کار کا تعین ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply