Aug
13
|
Click here to View Printed Statement
صدر استعفیٰ دیں گے یا ان کا مواخذہ ہوگا‘ جو بھی ہوحکمرانوں کو عوام کے مسائل کے حل کی طرف جلدازجلد توجہ کرنی چاہیے۔ جونہی مشرف کے حوالے سے خبریں ٹھنڈی پڑنی شروع ہوں گی لوگ پھر اپنے زخموں کی ٹیسیں محسوس کرنے لگیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ماہ کے اندر ہی لوگ موجودہ حکومت سے اُکتا چکے ہیں۔ شدید گرمی میں منہ زور لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو اعصابی لحاظ سے بہت کمزور کردیا ہے۔
جان لیوا مہنگائی اور مسلسل بے یقینی نے بھی عوام کے اندر بے چینی کی خوفناک لہریں پیدا کر رکھی ہیں۔ رائے عامہ بنانے والے ادارے بھی ایسی ایسی خبریں چھوڑتے ہیں کہ عام تاثر یہ پیدا ہوچلاہے کہ یہ اتحادی چند دنوں کی بات ہے۔ رجحان ساز تنظیموں نے قوم کو پھر کسی تبدیلی کے لئے ذہنی طور پر تیارکرنا شروع کردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کا ایک بھاری گروہ دن رات اس کوشش میں ہے کہ گھٹنوں کے بل چلنے والی اس جمہوری حکومت کو اٹھنے نہ دے۔ سارا زور قلم اور فشارِ علم موجودہ حکمرانوں کو مفلوج کرنے‘ ان کے درمیان اختلافات تلاش کرنے اور اس سیٹ اپ کو ناکام ثابت کرنے پر صرف ہوا ہے ۔ کوئی قومی ادارہ‘درمندگروہ اور سنجیدہ تھنک ٹینک اس حکومت کو کارآمد تجاویز دینے کی تکالیف گوارہ نہیں کر رہا۔ ہر کوئی تنقید کے نشتر لئے کوئی پیٹھ ڈھونڈ رہا ہے۔
اس برے بھلے نظام کو گرانے سے پہلے یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ ابھی اٹھارہ فروری کو عوام نے اپنے ووٹوں سے اس سیاسی اتحاد کو بھاری مینڈیٹ دیا ہے۔ کیا ہمارا قومی ویژن اس قدر کمزور تھا کہ ہم نے ”انتہائی نااہل ترین“ لوگوں کو انجانے میں منتخب کر ڈالا؟۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پاکستانی قوم اپنے معاملات جمہوری طریقے سے چلانے کے اہل نہیں رہی؟ فوری تبدیلی کے تقاضے کرنے والے حلقے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس حکومتی اتحاد کے ٹوٹ جانے کے بعد کون سے فرشتے ہماری مدد کو اتریں گے۔؟
دوسری جانب حکمران اتحاد اگر سمجھتا ہے کہ مشرف کے چلے جانے کے بعد ان کی قومی ذمہ داریاں پوری ہوجائیں گی اور وہ مکمل طور پر ”خودمختار“ ہو کر سکون سے حکومت کر پائیں گے سراسر احمقانہ سوچ ہے۔ مشرف کے مواخذے سے عوام کی زندگیوں میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی جب تک ہمارے سیاسی قائدین اپنے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے۔ قومی وقار اور عوامی خوشحالی کی گاڑی کو پھر سے راہ راست پر لانے کے لئے مصلحین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مصلحین اوپر سے نہیں اترتے بلکہ حکمران گروہوں کے مزاج بدلنے سے انہی کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ حکمران ٹولے کو بالآخر یہ عہد کرنا ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ ملکی معاملات کو باہمی مشاورت سے طے کریں گے اور اپنے ہر اقدام کا محور اور مرکز صرف اور صرف قومی اور عوامی امنگیں ہوں گی میرا یہ یقین ہے کہ اگر جناب آصف علی زرداری اور جناب میاں محمد نوازشریف یہ تہہ کر لیں کہ چار برس کے اندر اندر اس ملک کی کایا بدلنی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ سولہ کروڑ مسلمانوں کے اس ملک کا کھویا ہوا وقار پھر سے بحال نہ ہوسکے۔ اصل مسئلہ اندر کی اصلاح ہے۔ انسان زندگی کے کسی موڑ پر بھی نیک نیت ہوجائیں تو بڑے سے بڑا بگاڑ بھی درست ہوجاتا ہے۔
گزشتہ دنوں جناب اکرم ذکی نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ”گڈ گورنس“ کے موضوع پر نشست کا اہتمام کیا۔ اصلاح احوال کے لئےانتھک کام کرنےوالے ادارے ”فورم آن گڈ گورنس“ کے بانی چیئرمین ممتاز پراچہ کراچی سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ پراچہ صاحب نے اپنی تگ و تاز کے حوالے سے مختلف اداروں اور وزارتوں میں پائے جانے والی کج رویوں کا احاطہ کیا ان کا کہنا تھا کہ وہ عوامی خدمت کے ہر دروازے پر دستک دے دے کر تھک گئے ہیں۔ واپڈا اپنے لائن لاسز ختم کرنے کی بجائے لوڈشیڈنگ کے عوام دشمن پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ بینکار کسی مفید سرمائے کاری کی بجائے اپنے اکاﺅنٹ ہولڈرز کو نچوڑتے رہتے ہیں میجر (ر) جنرل عبدالقیوم نے سٹیل ملز اور واہ آرڈیننس فیکٹری کے حوالے سے پیش آنے والی انتظامی مشکلات اور ان کے حل کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کئے ۔ جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ اگر ادارے کا سربراہ پختہ عزم کرلے تو پھر کارکن بھی اصلاح کے عمل میں شامل ہوجاتا ہے۔ نشست میں ”قدیر لبریشن کمیٹی“ کے سربراہ حسام الحق اور ایکس سروس مین ایسوسی ایشن کے سرکردہ ممبر بریگیڈیئر میاں محمود بھی تشریف فرما تھے۔
راقم نے وہاں بھی یہی نقطہ اٹھایا کہ گڈ گورنس یا اصلاح احوال کا سارا دارومدار مقتدر اور بااختیار لوگوں کے اندر کی اصلاح پر ہے۔ اگر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف ہوں تو پولیس سمیت صوبے کا ہر ادارہ اچھے نتائج دینا شروع کردیتا ہے۔ اصل مسئلہ حکمران کا ہے اگر وہ ”صالح“ ہے تو پھر ”گڈ گورنس“ اور صلاحیت پانی کی طرح نیچے تک اپنا راستہ خود بخود بنا لیتی ہے۔
میڈیا اور دوسرے رائے عامہ کے اداروں کو بار بار انقلاب کی راہیں ہموار کرنے کی بجائے حکمرانوں کو بہتری کی طرف گامزن ہونے میں مدد کرنی چاہئے۔ انتہاﺅں کو چھونے کی بجائے درمیانہ راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے‘اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں(سورة آلِ عمران)۔
ذرائع ابلاغ آخر خود کو ایسا گروہ بنانے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں ان کی رائے یکطرفہ کیوں ہوتی جارہی ہے ہرمنفی قدر اور جذبہ ہی خبر کیوں بن رہی ہے۔ تخریب کی بجائے تعمیر کا جذبہ کون ابھارے گا؟۔ عوام کو اب انقلابات کے عذاب سے نکالئے اور اصلاح کے بیج بونے دیجئے!۔