Oct
23
|
Click here to View Printed Statement
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حسبِ توقع سندھی اور پنجابی کے درمیان نفرتیںپھیلانے والے عناصر پھر سے سرگرم ہوگئے ہیں۔ بعض سیاستدان انتخابی جلسوںکو گرمانے کے لئے صوبائی تعصب سے آلودہ زبان بول رہے ہیں۔ ایسے پارٹی اشتہارات بھی شائع ہوئے ہیں جن سے سندھیوں کے جذبات مجروح ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صوبائی ہم آہنگی کے لئے باقاعدہ ایک منصوبہ بنایا جاتا اور تمام صوبوں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے سرکاری اور عوامی سطح پر مسلسل کاوشیں کی جاتیں۔ لیکن وحدتِ ملت کے فرض کو یہ حکمرانوں نے نہ صرف یہ کہ نبھایا نہیں بلکہ صوبائی عصبیت کو ذاتی منعفت وجاہ کے لئے ابھارا۔ اسی سیاسی روش کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ افسوس کے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے بھی ہم نے بحیثیت قوم کوئی سبق نہیں سیکھا۔نفرت کا جو لہجہ ہم بنگالیوں کے لئے مختص رکھتے تھے آج کل اسی سے ملتا جلتا اظہارسندھی بھائیوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔
سندھ کی تاریخی دھرتی کا دامن اپنے اندر ہزاروں خوبیاں لئے ہوئے قائداعظمؒ کے پاکستان کے لئے پھیلا تھا۔ اگر اس وقت کی سندھی قیادت پاکستان میں شمولیت اختیار نہ کرتی تو پاکستان ہر لحاظ سے ادھورا رہ جاتا۔ طویل سمندر‘ وسیع و عریض جنگلات اور میٹھے اور محنتی لوگ یہ قیمتی اثاثے نہ صرف ہماری جغرافیائی حفاظت کا بندوبست ہیں بلکہ ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی بھی ثابت ہوئے ۔
راقم کو اندرون سندھ چوبیس سال گزارنے کا موقعہ ملا ہے۔ نواب شاہ سے پرائمری ‘میٹرک اور بی اے تک کی تعلیم حاصل کی اور وہاں گورنمنٹ سکول میں ٹیچر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ بزرگانِ دین اور صوفیاءاکرام کی اس دھرتی سے وہاں سے مجھے ایک قلبی لگاﺅ ہے۔ میںنے وہاں رہتے ہوئے وہاں کے لوگوں کے اندر ہر اعلیٰ انسانی وصف کو بدرجہ اتم محسوس کیا ہے۔ سندھ کے لوگ پنجاب کے لوگوں کی طرح ہی کشادہ دل اور وضع دار ہیں۔ مہمان نواز ہیں اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔ سندھ کے گوٹھوں میں آج بھی یہ روایت قائم ہے کہ اگر کوئی مسافر محلے کی مسجد میں آجائے اور اعلان کرے کہ وہ بھوکا ہے تو بیک وقت تین چار گھروں سے اس کے لئے کھانا اور بستر وغیرہ مہیا ہوجاتا ہے۔ پنجاب میں شائد اب یہ روایت دم توڑ چکی ہے۔
سندھ کے عام لوگ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے۔ بلکہ سندھ میں یہ تاثر بہت پختگی اختیار کرچکا ہے کہ قیام پاکستان کے لئے سندھ نے خود آگے بڑھ کر قائداعظمؒ کی اپیل پر لبیک کہا تھا اور بلامشروط طور پر پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تحریک پاکستان کا ادنیٰ سا طالب علم بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ صوبہ سندھ کے پاس دیگر آپشن بھی موجود تھے لیکن قائداعظمؒ کے مسلم ریاست کے تصور کی حمایت کرتے ہوئے اسلام کی خاطر اہل سندھ نے ممبئی یعنی بھارت کی بجائے ایک قرارداد کے ذریعے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ صوبہ سندھ کا پاکستان پر یہ بہت بڑا احسان ہے۔
اہل سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں غربت بہت ہے۔ پنجاب کے لوگ سندھ میں پائی جانے والی مفلسی کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ مجھے وہاں رہتے ہوئے کئی بار احساس ہوا کہ سندھی عوام کے لئے عام انسانی ضرورتیں بھی مہیا نہیں کی جارہی ہیں۔
آپ آج بھی وہاں دیکھیں گے کہ جس جوہڑ سے بھینس اور مویشی پانی پیتے ہیں‘ اسی بدبودار اور نجس پانی سے سندھی عورتیں کپڑے دھوتی اور اسی پانی کو پیتی ہیں۔ پنجاب کے مزدور کی دیہاڑی تین چار سو روپے ہے لیکن سندھ میں آج بھی مزدور کو بمشکل سو روپے ملتے ہیں۔ غُربت احساس محرومی کو جنم دیتی ہے اور اس محرومی کے احساس کو سندھی وڈیرہ اپنی سیاسی بارگیننگ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ پاکستان پر قابض اسٹیبلشمنٹ سندھ کے عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کی بجائے سندھی وڈیروں سے سیاسی مکالمہ جاری رکھتی ہے ۔ترقیاتی بجٹ چند محدود حلقوں تک خرچ ہوتا ہے اور عام سندھی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ترقیاتی منصوبوں سے محروم رہتا ہے۔
صوبہ پنجاب آبادی اور وسائل کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لہٰذا حکومت کے اندر بھی سب سے زیادہ حصہ اور اختیار پنجابیوں کے پاس ہی ہے۔ سندھی لیڈرز تعداد اور استعداد کی اس فطری بالاتری کو پنجابی فوج‘ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا نام دے کر سندھی عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔
بدقسمتی سے اب تک صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے تین عظیم رہنما پنجاب کے اندر موت سے ہمکنار ہوئے۔ جناب لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں قتل کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا راولپنڈی میں عدالتی قتل ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی یہیں شہید کردیا گیا۔ گو کہ پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں نے وفاق کی خاطر سندھی کارڈ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سندھ کے عوام محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو پنجاب کی کارستانی سمجھتے ہیں۔۔ محبتوں کے امین سندھی بھائیوں اور بہنوں کے دل دکھے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل پنجاب آگے بڑھ کر سندھی عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ حکومت کو چاہئے کہ سندھی اخبار نویسوں کو اندرون پنجاب کے دورے کروائے اور پنجاب کے دانشوروں‘ صحافیوں اور شاعروںکو اندرون سندھ لے جا کر وہاں کے حالات سے آگاہ ہونے کا موقعہ فراہم کرے۔ ایسے اقدامات کئے جائیں تو سندھی پنجابی بھائی بھائی کا تصور آنے والی نسلوں میں راسخ ہوجائے گا اور کسی دشمن کو صوبائی تعصب کے پردے میں ملک دشمن سرگرمیوں کا موقع نہیں مل سکے گا۔