Sep
01
|
یہ فطری بات ہے کہ جو حکمران سات برس سے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک چلاآرہا ہو۔ جس کے منہ سے نکلنے والے ہر جملے پر واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے ہوں اور جس کے ہر قدم کو ”قومی مفاد“ کیلئے نسخہ کیمیا بیان کیا گیا ہو وہ جب اپنے سامنے اپنا اقتدار جاتے دیکھے گا تو ردعمل کا شکار ہوجائے گا ۔
قد آور اور تاریخی شخصیات کا یہ بڑا المیہ ہے کہ وہ دیوار پر لکھے ہوئے حقائق کو پڑھنا نہیں چاہتے ۔انہیں اپنی طاقت کا گھمنڈ حقیقت پسند ہونے ہی نہیں دیتا ۔بظاہر وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ہر فیصلہ قبول کرلیں گے لیکن پس پردہ وہ آئین اور قانون کی اس حیثیت کو ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں جو حکمران کی رخصتی کا باعث بن سکتی ہو ۔پھر ایک وقت آتا ہے کہ مطلق العنان حکمران دوراہے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے اس کا ایک قدم حالات سے مفاہمت کی طرف اٹھتا ہے جبکہ دوسرا قدم بالکل مخالف سمت میں جارہا ہوتا ہے ۔ان تضادات کا شکار ہوکر آمر مطلق حکمران ذہنی خلجان میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔وہ کھلے عام دھمکیوں پر اترآتا ہے ۔اس طرح وہ لوگ جو ابھی حمایت یا مخالفت کی باریک سی لکیر پر کھڑے ہوتے ہیں وہ بھی مخالف کیمپوں میں سرک جاتے ہیں ۔یا سیّت بڑھتی ہے تو اقتدار کی کشتی بچانے کیلئے عجیب وغریب حرکتیں شروع ہوجاتی ہیں ۔حکمران ایسے افراد اور گروہوں کی گود میں جاگرتا ہے جو کشتی کے بوجھ میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں ۔لیکن مایوسی کی انتہاءوہ مرحلہ ہوتا ہے جب حکمران فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس کی ناخدائی میں کوئی کج روی نہیں بلکہ کشتی ہی غلط بنی ہے اور پھر بوجھ کم کرنے کی غرض سے وہ کشتی کے پھٹے اکھاڑنا شروع کردیتا ہے ۔پاکستان میں آج کل ایسا ہی سیاسی منظر ظہور پذیر ہوجکا ہے ۔صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت بچانے کیلئے چو مکھی جنگ شروع کررکھی ہے ایک طرف محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈیل کی کوششیں ہورہی ہیں اور دوسری طرف شریف براداران سے ملاقات کیلئے وفود تشکیل دئیے جارہے ہیں ۔یہ مفاہمت کی طرف اٹھنے والا قدم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے بعض دوست ممالک کے ہاں بھی ایلچی بھیجے جارہے ہیں کہ وہ نوازشریف کو مجبور کردیں کہ وہ پاکستان نہ آئے ۔کیا میاں برادران سے یہ دوغلی پالیسی چھپی رہ سکتی ہے ؟۔ کیا وہ اتنے ہی سادہ لوگ ہیں کہ عروج کو چھوتی ہوئی اپنی سیاسی شہرت کو مشترکہ دوستوں کی جھولی میں ڈال دیں گے ۔دوسری جانب محترمہ بےنظیر بھٹو صدر مشرف کی طرف سے جواب کی منتظر ہیں لیکن ق لیگ والے صدر مشرف کو کسی صورت محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈیل کرنے نہیں دے رہے۔چوہدری برادران کا خیال ہے کہ پی پی پی سے کسی قسم کی ڈیل اقتدار کی کشتی پرناروا بوجھ ہوگا۔صدر مشرف دھیرے دھیرے اپنے اعصاب پر عقل ودانش کی گرفت کھورہے ہیں ان کے اندر مایوسی نے ڈیرے جمانے شروع کردئیے ہیں ۔مارشل لاءکی دھمکیاں اور سپریم کورٹ کے خلاف ایک وفاقی وزیر کے لسانی حملے دراصل صدرمشرف کے اندرونی خلفشار کا اظہار ہیں ۔انہیں اقتدار بچانے کا کوئی قابل عمل حل سجھائی نہیں دے رہا ۔انہیں جھٹکوں کا چھکا لگ چکا ہے ۔اب وہ جوابی مکا لہرارہے ہیں ۔خدا جانے یہ مکا کشتی توڑنے کیلئے نہ ہو!۔
صدر جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف بھی ہیں ۔پاکستانی سرحدوں کی حفاظت ان کی پہلی ذمہ داری ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ وہ باوردی صدر منتخب ہونے کے جنون میں اسقدر عرقاب ہیں کہ ان کے نزدیک سرحدوں پر جیسے کچھ ہوہی نہیں رہا ۔اتحادی اور امریکی طیاروں کی طرف سے پاکستانی حدود میں گھس کر عورتوں اور بچوں کے قتل عام سے انہوں نے آنکھیں چرا لی ہیں ۔ان کے نزدیک دفاع وطن سے زیادہ شائد صدارت اہم ہے !
سیاسی پارٹیوں کو ایسے الجھے ہوئے سیاسی حالات میں بڑے تدبر اور صبر سے آگے بڑھنا ہوگا ۔وہ کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ صدر مشرف کو کسی قسم کے اشتعال میں آنے کا موقع ہی نہ مل سکے کیونکہ فوجی حکمران مشتعل ہوکر مارشل لاءکا سہارا لیتے ہیں ۔مارشل لاءکا مطلب عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لانا اور ملک کو خون خرابے کی نذر کرنا ہوتا ہے ۔سیاسی رہنماﺅں کو ایسے وفود تشکیل دینے چاہیے جو مشترکہ دوستوں پر مشتمل ہوں ۔وہ صدر مشرف سے ملیں اور انہیں اقتدار چھوڑدینے پر راضی کریں ۔صدر کو یقین دہانی کرائی جائے کہ رضا کارانہ طورپراقتدار چھوڑ دینے سے جہاں ان کی شہرت میں اضافہ ہوگا وہیں پاکستان جگ ہنسائی سے بھی بچ جائے گا ۔صدر مشرف اور ان کے قریبی ساتھیوں کو مشترکہ دوست یہ بھی یقین دلائیں کہ ان کی باعزت واپسی کیلئے راہ موجود ہے ۔اس طرح ہوسکتا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف مزید کسی منفی ردعمل سے بچے رہیں ۔اس وقت سیاسی کھیل کے تمام کھلاڑیوں پر لازم ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ردعمل کا اظہار کریں۔