Aug
05
|
Click here to View Printed Statement
دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ،افغانستان اور ایران کا مشترکہ سرحد ی علاقہ عالمی سطح پر سیاسی سونامی ثابت ہوگا ۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں امریکہ اور چین کے مفادات کا ٹکراﺅ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایرانی قیادت کی بھی خواہش ہوگی کہ جہاں ایک طرف امریکی فوجیں عراق کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں وہاں دوسری جانب وہ افغانستان کے پہاڑوں سے یونہی سر ٹکراتی رہیں۔اور اگر امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں براہ راست حملہ کرنے کی غلطی کرتا ہے تو یہ وہ تیسرا محاذ ہوگا جس پر امریکی مخالف قوتیں اپنی توانائیاں لگانا شروع کریں گی ۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ طالبان دور حکومت میں ایران اور طالبان کے تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہوگئی تھیں آج کے بدلے ہوئے حالات میں رنجشیں ختم ہوکر قربتوں میں تبدیل ہورہی ہیں ۔خود امریکی حکومت الزامات لگارہی ہے کہ ایرانی حکومت کی طرف سے طالبان کو جدید ترین اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے ۔جبکہ یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر عسکریت پسندوں کی تربیتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے ۔بھارت کی حکومت بھی ان سرگرمیوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طورپر ملوث ہوگئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ بھارت اور امریکہ عسکریت پسندوں کے ایک گروہ کی حمایت کررہے ہیں ۔سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو چین کیخلاف تیار کیا جارہا ہے ۔مسلمانوں کا یہ گروہ چین کے اندر صوبہ سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں کی نظریاتی اور عسکری مدد کررہا ہے ۔یہ امکان بھی ہے کہ بھارت ،امریکہ اور افغان حکومت ملکر تخریبی گروہوں کو پاکستان کے فاٹا کے علاقوں میں داخل کریں تاکہ پاکستان کو داخلی مسائل سے دو چار کرکے چین کی حمایت سے روکا جاسکے۔ اگر امریکہ پاکستان پر میزائل مارتا ہے یا ہوائی حملے کرتا ہے تو پاکستان کے وہ لوگ جو ابھی تک امریکی مخالفت میں محتاط ہیں وہ بھی پوری یکسوئی کیساتھ امریکہ کیخلاف صف بستہ ہوجائیں گے اور اگر پاکستانی حکومت نے امریکی طیاروں کو بزور قوت نہ بھی روکا تو پاکستان کے مرکزی علاقوں میں اب تک پرامن زندگی گزارنے والے جہاد افغانستان کے دوران تربیت پانے والے لاکھوں مجاہدین بھی میدان میں آجائیں گے ۔فوج اور مجاہدین کے آمنے سامنے آجانے سے پاکستان بدترین قسم کی خانہ جنگی میں مبتلا ہوجائے گا ۔ہمسائیہ ممالک ایسی صورتحال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔خصوصاََ بھارت یا افغانستان ،پاکستان کیخلاف کسی نہ کسی مہم جوئی کیلئے آگے بڑھے گا ۔ اس تیزی سے بدلتی صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے اندر ایک قومی سطح کی مشاورت کا اہتمام ہو اور فرد واحد کی سوچ اور حکمت عملی سے قوم کو چھٹکا را دلاکر کوئی بالغ النظر سیاسی حکومت معروض وجود میں لائی جائے ۔کوئی ایسی تبدیلی جس کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ لوگ یا لوگوں کا مخصوص گروہ برسر اقتدار جائے اس سے پاکستان کے داخلی حالات میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔امریکی صدر کی کوشش ہوگی کہ وہ جمہوریت کے نام پر پاکستان پر اپنا پسندیدہ سیاسی چہرہ مسلط کرکے اپنی عوام اور دنیا کو بے وقوف بنائے ۔لیکن پاکستان کے اٹھانوے فیصد عوام اب حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود آتش فشاں کو پھٹنے سے بچانے کیلئے صرف وہی قیادت فائدہ مند ہوسکتی ہے جو امریکہ مخالف ہو اور اسلام پسند حلقوں کی زبان سمجھتی ہو ۔ جس کا اول وآخر مقصد پاکستان کی کھوئی ہوئی خود مختاری کو امریکی پنجے سے نکال لانا ہو ۔ذہنی طورپر امریکی غلامی کا شکار شخصیت چاہیے امریکی آشیر باد حاصل بھی کرلے پاکستانی مسائل اور وطن پر منڈلاتے خطرات کا سدبات نہیں کرسکے گی۔