May
21
|
Click here to View Printed Statement
سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں‘ اسلحہ برداروں اور جنگجوﺅں کیخلاف فوجی آپریشن جاری ہے۔ پاکستان کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے ریاستی عملداری کو یقینی بنانے کے لئے ایسے آپریشنز کی حمایت کردی ہے ۔جو اختلافی بیانات سامنے آرہے ہیں‘ان کی وجہ آئندہ کے انتخابات میں مذہبی حلقوں کے ووٹ اینٹھنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی کی یہ معاملہ فہمی اور حب الوطنی کا ثبوت ہے کہ ان پارٹیوں کو بھی کل جماعتی کانفرنس میں مدعو کیا جو پارلیمنٹ سے باہرہیں۔ یہ حکومت کا بڑا پن ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ ایسے قومی اجتماعات کو ترستی ہی رہی ہے۔ خدا کا شکر ادا کیا جانا چاہیے کہ انہوںنے اپنے خاص کرم کے ذریعے گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کو اتفاق نصیب فرما دیا ‘میرے خیال میں پاکستان کے دشمنوں کو ہماری قومی قیادت نے ایسا مٹھی بند قسم جواب دیا ہے کہ اب ان کے سازشی کارندے افواہوں کے ذریعے پاکستانی عوام کو مزید خوفزدہ نہیں کرسکیں گے۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں غیروں کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات بھی دم توڑجائیں گے۔ خصوصاً ہماری بہادر مسلح افواج کو قومی وحدت سے وہ طاقت میسر آئے گی جو انہیں ریاست کے اندر ریاست بنانے والے گروہوں کے خاتمے کا اخلاقی جواز بخشے گی۔ پاکستان داخلی طور پر مضبوط ہوگا تو پھر خارجی محاذوں کی حفاظت بھی آسان ہوجائے گی۔
اگر ”طالبان“ واقعتا پاکستانی ہیں اور نفاذ شریعت کے مطالبے کے کے علاوہ ان کے کوئی اورمقاصد نہیں تو پھر اپنے ہی وطن کی محافظ فوجوں کے مقابلے پر اس شدت کے ساتھ جنگ کیوںلڑ رہے ہیں ؟ کیا وہ کوئی باقاعدہ فورس ہیںجو پاکستان کے اندر ایک علاقے پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ؟۔ آج ہر پاکستانی یہ سوال کرتا ہے کہ بزور طاقت شریعت کے نفاذ پر اڑے رہنے والے اور معاہدہ ہوجانے کے باوجود اپنی ”فتوحات“ کا دائرہ وسیع کرنے والے ان ”طالبان“ کو حاصل کیا ہوا ہے؟ جن اہل سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو وہ ”شریعت“ کے ذریعے اپنا ہمنوا بنانا چاہتے تھے ‘جن کے اسلامی حقوق کی جنگ لڑنے کے دعویدار تھے انہیں آخر کیا ملا ہے۔ پندرہ سے بیس لاکھ تک یہ پرامن لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جن کے چہروں کو کبھی آسمان نے نہیں دیکھا تھا آج قطاروں میں کھڑی اپنے بچوں کے لئے خشک دودھ کا انتظار کرتی ہر کسی کو دکھائی دے رہی ہےں۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو اس عارضی بے سروسامانی کے بعد کسی دوسرے ملک ہجرت کرنی نہیں پڑی بلکہ تھوڑی مدت کے لئے اپنی شاداب وادیوں کو چھوڑ کر اس وطن کے مہمان نواز لوگوں کا مہمان بننا پڑا ہے اور سچ یہ ہے کہ کراچی سے خیبر تک اور مکران سے رحیم یار خان تک ہر پاکستانی ان کی مہمان نوازی کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ کیا ”طالبان“ صرف لوگوں کو محرومیاں دینے اور دکھ بخشنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ؟۔اگر کسی اور ملک میں ایسا معاملہ ہوتا تو کوئی آبادی نہ بچ پاتی۔ حکومتیں اتنے تکلفات نہیں برتتیں۔ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لئے تو منکرین زکوٰة کیخلاف بھی جنگیں جائز ہوجاتی ہیں چاہے اس کی زد میں آنے والے کتنے ہی مقدس نام کیوں نہ رہے ہوں۔ فتنہ پروریوں پر قابو پانے کا قرآن نے حکم دیا ہے ۔
میرے جیسے لوگوں کی ”طالبان“ سے اب بھی اپیل ہے کہ وہ سوات سے بھاگ کر جنوبی وزیرستان میں نیا محاذ کھولنے کی بجائے قومی قیادت کے متفقہ فیصلے کو قبول کر لیں اور ہتھیاروں کا استعمال بند کردیں تاکہ ہمارے دشمن ہمارے اوپر مزید قہقے نہ لگا سکیں۔تحریک نفاذِشریعت محمدی کے ترجمان کہتے ہیں کہ آئندہ قومی انتخابات میں وہ ان تمام پارٹیوں کو شکست سے دوچار کردیں گے جنہوں نے کل جماعتی کانفرنس کے اندر بیٹھ کرحکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر تبدیلی کا عمل ووٹ کے ذریعے ہی ہونا ہے تو پھر اس جنگ و جدل کا جواز کیا تھا؟
پاکستانی قوم کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سوات اور دیر سے آنے والے لوگ مہاجر نہیں بلکہ ہمارے مہمان ہیں۔ ان کے اس ملک میں گھر ہیں ‘ جائیدادیں ہیں ‘ فصلیں ہیں‘ مویشی ہیں۔ وہ چند مہینوں کےلئے اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاںقیام کرنے آئے ہیں۔ انہیں مہاجر کے نہیں مہمان کے حقوق دیئے جائیں۔ ضروریات زندگی ہی نہیں خاطر مدارات کا اہتمام ہونا چاہیے!۔