Feb
16
|
Click here to View Printed Statement
کور کمانڈرز کی ایک سو چھٹی کانفرنس میں فوجی افسران کی سِول محکموںمیں ملازمت کے حوالے سے جوہری تبدیلیوں کی اصولی منظوری ہوجانے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی کی طرف سے عملی اقدامات بھی سامنے آگئے ہیں۔ بائیس کے لگ بھگ ایسے سِول محکمے ہیں جن میں میجر جنرل سے لے کر میجر تک کے عسکری آفیسر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
اب ان 152فوجی افسران کو آرمی چیف کی طرف سے لکھے گئے خط کے ذریعے حکم مل چُکا ہے کہ وہ پندرہ مارچ تک جی۔ایچ۔ کیو میں رپورٹ کریں۔
پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔افواج پاکستان واحد قومی ادارہ ہے جس نے حالتِ جنگ اور امن دونوں میں قومی ضرورتوں کو پورا کیا ہے۔بَدقسمتی سے 1956ءکے بعد فوج کے بعض طالع آزماءجرنیلوںنے حکومتی معاملات اور ریاستی اُمور میں مداخلت شروع کردی اور پاکستان کے تیس برس فوجی اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیئے۔ مارشل لاﺅں اور آرمی رُول کا سب سے بڑا نقصان مسّلح افواج کے اس انتہائی منظم اور مربوط ادارے کو ہوا۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں اس نقصان نے خطرناک صورتحال اختیار کر لی تھی اور قوم کے اندر اپنی فوج کے حوالے سے پائے جانے والے مثبت جذبات پر کاری ضرب لگائی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ عالمی حالات تبدیل نہ ہوتے اور نائن الیون کا واقعہ رُونما نہ ہوتا تو شائد افواجِ پاکستان کی ساکھ کو اس قدر دھچکے نہ لگتے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایک اور موقعہ دیا ہے کہ وہ اپنی مسلح افواج کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کو دُور کرسکے۔ پاکستانی قوم بجا طور پر سمجھتی ہے کہ آرمی چیف کی تبدیلی سے نئے سپہ سالار کی صورت میں قدرت کی طرف سے ایک خاص کرم ہوا ہے۔ جنرل اشفاق کیانی نے کمان سنبھالتے ہی جہاں افواج پاکستان کا مورال بلند کرنے کے نظریاتی اور انتظامی محاذوں پر سرگرمی دکھائی ہے وہیں انہوں نے عوام کے اندر آرمی کا امیج بحال کرنے کے لئے آئین پاکستان میں دیئے گئے کردار تک فوج کو محدود رکھنے کا اظہار بھی کیا ہے۔ آج سیاسی پارٹیاں اس بات پر خوش ہیں کہ اب ان کے معاملات میں ایم۔آئی والے کسی طرح کی مداخلت نہیں کر رہے۔ فوج کو سیاست کی آلودگیوں سے بچا کر خالص پیشہ وارانہ زندگی کی طرف لوٹانا ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں‘ اس سلسلے میں سپہ سالارِ اعظم کے واضح احکامات پہلے ہی سامنے آچکے ہیں۔
فوجی افسران کو سِول محکموں سے واپس بُلانے کے عمل نے یہ ثابت کردیا کہ جنرل اشفاق کیانی جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔سوچ اور عمل کے حسین امتزاج کے حامل آرمی چیف کے اصلاحاتی ایجنڈے کی پذیرائی اندرونِ خانہ ہی نہیں بیرون خانہ بھی جاری ہے۔آئی۔آر۔آئی کے سروے میں بتایاجا چُکاہے کہ نئے آرمی چیف کے آنے سے پاکستانیوں کے اندر اپنی فوج کے حوالے سے محبت پھر سے پروان چڑھنا شروع ہوگئی ہے۔قوم امید کرتی ہے کہ چیف صاحب کے اِن اقدامات کے نتیجے میں عوام اور فوج یک جان دو قالب کی تصویر پیش کرنے لگیں گے۔
انٹیلی جنس بیورو‘ نیب‘ نیشنل ہائی وے‘ سی ڈی اے‘ نادرا‘کراچی پورٹ ٹرسٹ‘نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو‘وزارت ِ تعلیم اور وزارتِ مواصلات جیسے سول محکمے کرپٹ افسروں کے لئے سونے کی چڑیا ثابت ہوتے رہے ہیں۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان محکموں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہنے والے ہمارے فوجی افسران کرپشن کے ماحول سے متاثر نہ ہوئے ہوں۔ جو نہی یہ محکموں میں سے نکلیں گے ان کے خلاف مالی اور انتظامی حوالوں سے بے قاعدگیوں کے الزامات بھی سامنے آنے کی توقع ہے اور اگر خدانخواستہ کچھ ٹھوس شواہد اخبارات کی زینت بن گئے تو پھر اعتراض اٹھے گا کہ کرپٹ لوگ واپس فوج میں کیا گُل کھلائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض حلقے اعتراض کریں کہ انہیں فارغ کرکے ان سے لوٹ مار کا حساب کیوں نہیں لیا گیاایسے الزامات سے بچنے کےلئے سب سے پہلے تو واپس بلائے گئے فوجی افسران کو خود رضاکارانہ طور پر احتساب کےلئے عوام کے سامنے پیش کردینا چاہئے اور یقینا ایسے لوگ ہونگے جو اتنا بڑا حوصلہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ معجزہ نہ بھی ہوسکے تو فوج کو اپنے سسٹم کے تحت سِول لائف گزارنے والے اِن افسروں کی اچھی طرح ”چھان بین“ کر لینا چاہئے۔
فوج کے تقدس کو برقرار رکھنے کی اس مہم میں قوم اپنے آرمی چیف کےساتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کی جائز امنگوں اور آرزوﺅں کا آئندہ کبھی قتل نہ ہو۔