Nov
01
|
Click here to View Printed Statement
محترمہ بینظیر بھٹو کی آمد اور ان کے شاندار استقبال نے پاکستان کے سیاسی ماحول میں عدم توازن کو جنم دے دیا ہے ۔ووٹروں کی نفسیاتی تقسیم کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔وفاداریاں نئی بنیادوں پر استوار ہونے کو بے چین دکھائی دے رہی ہیں ۔
آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم میں نت نئے رنگ بھرنے کی کوشش کرے گی۔محترمہ نے دبئی چھوڑنے سے قبل ہی پرو پی پی پی اور اینٹی پی پی پی کی روائتی جنگ کا نقارہ بجادیا ہے ۔ان کی آئندہ کی تقاریر اور بیانات بھی دوجماعتی سیاست کی راہ ہموار کریں گے ۔ملک ایک بار پھر بڑے گروپس میں تقسیم ہوجائیگا ۔محترمہ بینظیر بھٹو، صدر جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کو امریکہ اور یورپ کی آشیر باد حاصل ہے ۔دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ کے حوالے سے تینوں طاقتوں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ان کے ایجنڈے میں رتی برابر بھی فرق نہیں ۔وہ خود کو موڈریٹ کہلاتے ہیں ۔محترمہ بینظیر ،جناب الطاف حسین اور صدر پرویز مشرف کو پروامریکی بلاک قرار دیا جاسکتا ہے ۔اس امریکی بلاک کو حدود میں رکھنے کیلئے کسی طاقتور قیادت کی ضرورت ہے ۔وہ قیادت اینٹی امریکہ گروہوں کے پاس نہیںہے ۔اس وقت پاکستان کے اندر موجود امریکی مخالف دھڑوں میں جناب عمران خان ،جناب قاضی حسین احمد یا ایم ایم اے کا ذکر ہوتا ہے ۔لیکن عمران خان کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے ۔قاضی حسین متحدہ مجلس عمل کے سربراہ ہیں ،لیکن ایم ایم اے کا ووٹ بنک مولانا فضل الرحمن کی سیاسی قلابازیوں کی وجہ سے بد دل ہوگیا ہے ۔دینی قوتوں کا اتحاد اینٹی بلاک بنا سکتا ہے لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کا توڑ نہیں کرسکتا ۔کیونکہ ایم ایم اے کا پنجاب اور سندھ کے اندر اثرونفوذ واجبی سا ہے ۔پجاب اور سندھ میں مسلم لیگ (ق) ہے ۔مسلم لیگ (ق)کے لوگ ہزار جواز تراشیں وہ خود کو صدر مشرف ،اس کی پالیسیوں اور بینظیر کے ساتھ مفاہمت سے خود کو الگ نہیں کرسکتے ۔مستقبل کی تقسیم میں (ق)لیگ کو اینٹی اور پرو پی پی پی کے بین بین چلنے سے سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔چوہدری برادران کا تذبذب دیدنی ہے ۔وہ ایک طرف مفاہمت کا مذاق اڑاتے ہیں دوسری طرف مشرف کے سب سے بڑے وفادار کے طورپر خود کو سامنے رکھتے ہیں ۔ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اینٹی امریکہ جذبات کو کیش کرانے کی جھوٹی کوشش کرنے سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں ۔کون ہوگا جو اینٹی امریکن جذبوں کیلئے سیاسی گنجائش پیدا کرسکے گا۔پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی بننے کا بھی اب کوئی احتمال نہیں ہے ۔آئی جے آئی جیسے اتحاد بنانے والے سب دوست اب دہشت گردی کیخلاف امریکی جنگ میں جتے ہوئے ہیں ۔مفاہمت ہوئی ہی اس لئے ہے کہ قبائلی علاقوں میں آگ اور خون کا جو کھیل جاری ہے اس میں تیزی آئے اورپاکستان میں پرو امریکہ سیاسی بلاک اس کھیل کو مکمل سپورٹ کرے ۔پی پی پی اور امریکہ مخالف سیاسی گروہوں کے مقابلے کیلئے میاں نواز شریف کو واحد قیادت کے طورپر دیکھا جارہا ہے ۔لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں مقتدر حلقے اور امریکی اثرورسوخ میاں نواز شریف کو پاکستان آکر مسلم لیگ (ن)کی قیادت کرنے نہیں دینا چاہتے ۔گو کہ مسلم لیگ (ن) کے مقامی قائدین میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے خوش فہمیوں پر مبنی بیانات جاری کررہے ہیں لیکن آئندہ پانچ برس میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔محترمہ کی آمد سے ایک سیاسی عدم توازن پیدا ہورہا ہے ۔پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کس طرح توازن پیدا کرے گی آنے والے چند دنوں میں واضع ہوجائے گا ۔کہاجاتا ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مشرف اور بینظیر کا اتحاد امریکیوں کے دباﺅ پر معروض وجود میں آیا ہے لیکن آگے چل کر یہی مفاہمت خود امریکہ کیلئے ایک چیلنج بن جائیگا۔دیکھئے کہ پاکستانی سیاست کے سینے میں کیا چھپا ہے!۔