Jul
19
|
اسے پاکستان دشمن قوتوں کی کارستانی ہی کہا جائے گا کہ ہم بحیثیت قوم تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں ۔ہمارے اندر سے برداشت اور رواداری کی جگہ انتہاءپسندی اور دہشت گردی نے راہ نکال لی ہے ۔ہم شاید دشمن کی باریک چالوں اور گہری سازشوں کو پہچاننے کی استعداد سے محروم ہوتے جارہے ہیں ۔
گروہی اختلافات کے سبب ہماری قوم کے بہترین صالح اور کارآمد مردوزن ضائع ہورہے ہیں اور بعض لوگ اسلام کے فلسفہ جہاد کو سمجھنے میں شاید غلطی کررہے ہیں ۔ایسی نظریاتی غلطی کی بنیاد پر فساد اور فتنہ برپا ہوتا ہے ۔آج سب سے بڑا چیلنج ہی ہمیں یہ درپیش ہے کہ فتنہ سازذہنوں سے مکالمہ کریں اگر وہ خود کو قوم کے اجتماعی دھارے میں واپس لے آئیں تو انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا جائے ۔پاکستان دشمن عناصر کیخلاف ایک متفقہ قومی موقف سامنے لایا جائے اور ایسے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے جو انتشار کی قوتوں کو کچل دینے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔فکری لحاظ سے بھی ہمیں قوم کے اکثریتی رحجانات اور عامتہ الناس کے جذبات کی ترتیب وتزین کرتے رہنا چاہیے۔
قرآن پاک میں واضح ارشادات ہیں کہ:۔
(1)جس نے ایک انسان کو قتل کیا ۔اس کے بغیر کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد پھیلایا ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔(سورة المائدہ آیت نمبر32)
(2) جس نے ایک مومن کو ارادے سے قتل کیا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔اس پر اللہ کا غضب بھڑکے گا اور لعنت ہوگی اور اس کیلئے بڑا عذاب تیار رکھا گیا ہے۔(سورة النساءآیت نمبر93)
قرآ ن مجید میں غیر مسلموں سے قتال کی صورت میں بھی مسلمان حکمرانوں کی توجہ کچھ شرائط کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ جان بوجھ کر اپنے صالح لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کو پسند نہیں فرماتے۔
اے نبی ﷺ مسلمانوں کو لڑائی کا شوق دلاﺅ ۔اگر تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں سو شخص ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب ہوں گے اس لئے کہ یہ کافر سمجھ نہیں رکھتے ۔اب اللہ نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا اور اس نے جانا کہ تم میں سستی ہے ،سو اب اگر ہوں تم میں ایک سو شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں گے دوسو پراور اگر ہوں ایک ہزار اشخاص تو غالب ہوں گے دوہزار پر اللہ کے حکم سے اور اللہ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے (سورة انفال آیت 65)
فرمان رسول ہے کہ :۔
(1)مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
(2)جو کوئی ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی پیروی کرے وہ مسلمان ہے ۔
(3)مسلمان کی جان و مال اور عزت وآبرو دوسرے مسلمانوں کیلئے اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کادن، حج کا مہینہ اور اللہ کا گھر(حجتہ الوادع کے موقع پر حضو ر کا خطاب)۔
اسلام سلامتی کا دین ہے اور دین ،نظام ،شریعت اور سسٹم کو کہتے ہیں اور کوئی نظام اسلام کے قریب ہو ہی نہیں سکتا جس میں انسان سے نفرت کی گئی ہو اسلام تو ایسا دین ہے جس کے واضع احکامات ہیں کہ مرض سے نفرت کرو مریض سے نہیں ۔قرآن پاک کی واضح آیت ہے کہ صرف ان سے لڑوجو تم سے لڑتے ہیں۔آج پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے قابل افسوس ہے ۔ صوفیاءکرام کی تعلیمات پر عمل ہورہا ہے اور نہ ہی شریعت پر لوگ کاربند ہیں ۔دوسرا پہلو بھی مد نظر رہنا چاہے کہ انتہاءپسندی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی اس کا عمل بڑھتا جارہا ہے ۔امریکہ ،برطانیہ انسانیت کش پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم مار کر لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دے انہیں اب تو کم ازکم اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔محض مسلم انتہاءپسندی کا ڈھنڈوراپیٹ کر مسلم آبادیوں کے خلاف جارحیت سے کسی جمہوری رویے کی عکاسی نہیں ہوسکتی اورڈیزی کٹر بم مارنے کے بعد بسکٹوں کی تقسیم کرنے والے اپنے انتہاءپسندانہ چہروں کو چھپا نہیں سکتے۔جب تک انتہاءپسندی کے بڑے مراکز میں تبدیلی نہیں آتی ۔اس وقت تک لال مسجد جیسے واقعات کو روکنا مسلمان حکمرانوں کیلئے بڑا مشکل ہوجائے گا ۔اگر امریکی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو مسلمان معاشرے مزید تقسیم ہونگے اور حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود انارکی پھیلنے کا خدشہ برقرار رہے گا ۔صوفیاءاور علماءکی اصل تعلیمات کے مخاطب جہاں میں اور آپ ہیں وہاں طاقت وقوت کے یہ بھی مراکز ہیں۔اگر بزرگان دین کی تعلیمات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اور ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں ترتیب دیاجاتا تو پاکستان کے اندر خود کش حملوں جیسے غیر انسانی اور غیر اسلامی ردعمل سامنے نہ آتا ۔یوں مسلمان مسلمان کے چیتھڑے نہ اڑاتے حق اور باطل کی خود ساختہ تعریفوں کی بنیاد پر معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار نہ ہوتا ۔ایک اللہ ایک رسول ایک قرآن تمام اکابرین کی یہی تعلیم رہی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ ہم علماءکی تعلیم سے دور ہوگئے ۔آج انائیں اناﺅں سے ٹکرا رہی ہیں ضدیں ضدوں کو دبوچ رہی ہیں ۔اور حالت یہ ہے کہ آدم کی اولاد انسان ہے ۔لہذا جس طرح میرے انسانی حقوق ہیں اسی طرح اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر انسان کے وہی حقوق ہیں ۔
(1)انسان کا احترام کیا جائے۔
(2)اختلاف کو برداشت کیا جائے۔
(3)خیالات اور جذبات کا احترام کیاجائے۔
(4)مذہب کا احترام کیاجائے۔
(5)بھوکا ہے تو روٹی ،ننگا ہے تو کپڑا اور غیر محفوظ ہے تو تحفظ دیا جائے۔
(6)رواداری اور ایثار کے جذبوں کو پروان چڑھایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ انسانوں اور جنوں کو میں نے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اور عبادت کی پہلی سیڑھی محبت ہے ۔جو خدا اور اسکے بندوں سے ہونا انسانیت کیلئے لازم ہے ۔تمام علماء،صوفیا اور اولیاءنے فرقہ ،رنگ نسل زبان کا لحاظ رکھے بغیر سب انسانوں کو گلے لگایا ان سے محبت کی ہے ۔اب جو جتنا انسان نواز ہے انسان دوست ہے وہ اتنا ہی پاک باز اور متقی ہے اور وہی خدا کے قریب ہے ۔کسی بزرگ نے فرمایا انسان سے محبت کرتے جاﺅ خدا سے قریب ہوتے جاﺅ گے ۔
اہل معرفت !شعروسخن کے بادشاہ ! ادب اور زبان کے کاریگر! قلم اٹھائیں ،زبان کھولیں،کوئی محاذ قائم کریں ،کوئی تحریک برپا کریں۔مایوسی سے نکالیں ناامیدی سے چھٹکارا دلایں،خون بہاتے انسان کو امن کے نعرے دیں! ایک دوسرے کو ختم کردینے والوں کو ایک دوسرے کو بچالینے کا ادب سکھایں! گردنیں کاٹ دینے والے لوگوں کو گلے لگانے کا سلیقہ سکھایں! کسی صوفی کی زبان بولیں! خواجہ غریب نوازکی تعلیما ت کی بات کریں ۔