Nov
25
|
Click here to View Printed Statment
”ظالمان“ کے ظلم کا شکار ہونے والی زیادہ سیاسی شخصیات کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہے۔مالاکنڈ ڈویژن ‘فاٹا اور پشاور میں اے این پی کا شائد ہی کوئی رہنما ہو جسے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ ایک اندازے کے مطابق اے این پی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ کا قتل عام کیاگیا ہے۔
کونسا گھر اور کونسا حجرہ ہے جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے مقتولوں کے لئے فاتحہ خوانی نہیں پڑھی گئی۔ طالبان نما ظالمان نے اس پارٹی کے مقامی رہنماﺅں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ان کے گھروں پر یلغاریں ہوئیں‘زنان خانوں تک کو آگ لگائی گئی۔ کالج پڑھتے بچے‘ بچوں کو ذبح کردیا گیا۔اے ۔این ۔پی کو خوفزدہ کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا۔ دھمکی آمیز خطوط اور فون روزمرہ کا معمول ہے۔ بلکہ پوری اسمبلی کو اڑا دینے کے الٹی میٹم بھی دیئے جاچکے ہیں۔وزیروں کی ہٹ لسٹ جاری کی گئی ہے اور یہ سلسلہ خدا جانے کہاں تک جاری رہے گا۔
بعض وزراءاور ایم پی اے حضرات عالم خوف میں پشاور چھوڑ کر دبئی جا پہنچے۔ کچھ نے ہوسکتا ہے کہ ”ظالمان“ سے اندر کھاتے معافی بھی مانگ رکھی ہو۔لیکن بحیثیت پارٹی اے این پی نے ظلم کے سامنے سرنڈرنہیں کیا۔
آج کل پشاور شہر کے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خودکش حملہ آور جب ہائی ٹارگٹ تک نہیں پہنچ پاتا تو پھر وہ سوفٹ ٹارگٹ یعنی عام شہریوں کی جان لینے کو ہی جہاد اکبر سمجھ کر خود کو اڑا دیتا ہے۔انسانی جسموں کے پرخچے اڑتے ہیں‘لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ہسپتالوں میں بستر نہیں ملتا اور مردہ خانوں میں جگہ کم پڑجاتی ہے ۔ پشاور کی تجارتی سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں۔جس شہر میںشیرخوار بچے بارود سے اڑادیئے جائیں وہاں عید کی خوشیاں کون منائے۔مسندِ اقتدار کانٹوں کی سیج نہیں تو اورکیا ہے؟ خوف وزیراعلیٰ ہاﺅس کی بارہ دریوںمیں گردش کرتا ہے۔ناظمین کی حویلیون میں چنگھاڑتا ہے اور شہریوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔
ظالمان نے سوچا ہوگا کہ اے۔این۔پی حزن و ملال میں ڈوب جائے گی اور اس کے رہنماءبھاگ جائیں گے۔اسمبلی ہوگی نہ پولیس ٹھہرے گی اور پشاور پر ظالمان قبضہ کرکے اپنی علیحدہ ریاست کے قیام کا اعلان کردیں گے۔
ایسا نہیںہوا۔ موت کا خوف بجا لیکن انسان پر ایک ایسی کیفیت بھی آتی ہے جب وہ موت پر بھی غالب آجاتا ہے۔ اے این پی جسے مذہبی جماعتیں سیکولر جماعت کا طعنہ دیتی ہیں اس کی قیادت نے بھاگنے کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ڈٹ جانے کی راہ اختیار کی ہے ۔ باچا خان کے پیروکاروں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس ملک یعنی پاکستان کی بقاءکے لئے کسی بھی محب وطن پارٹی سے زیادہ محب وطن ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مستقبل کی ہی نہیں بلکہ جانوں کی قربانی بھی دے سکتے ہیں اور ان لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ انہیں اپنی دھرتی سے لازوال محبت ہے اور وہ کسی خارجی تحریک کے ہاتھوں اپنے معاشرے کو یرغمال ہونے نہیں دیںگے۔پاکستانیوں کو اور خصوصاً لکھنے والوں کو اے این پی کی اس جانفشانی اور استقلال پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
گزشتہ دنوں پشاور میں پے در پے خودکش دھماکوں کے بعد ذرائع ابلاغ نے جناب بشیر احمد بلور کے تاثرات لئے اوران سے پوچھا کہ اے۔این۔پی کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا‘ اس پر بشیر بلور نے جوجواب دیا وہ صوبہ سرحد یا صوبہ پختون خواہ کے لوگوںکی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہے‘
”یہ طالبان اگر ہمارے بچوں کو بھی مار دیں‘ وزیراعلیٰ ہاﺅس پر حملہ کردیں‘ کچھ بھی کریں ہم ان کے سامنے جھکیں گے نہیں‘ عوام کو ان کے حوالے نہیں کریں گے۔“ بشیر بلور کی آنکھوں میں غم کے ساتھ غصہ بھی تھا ان کے لہجے سے عجیب طرح کا عزم مصّمم چھلک رہا تھا۔ میں ان کی گفتگو سنتا رہا ۔مجھے یقین آگیا کہ پٹھان واقعی غیرت مند ہوتے ہیں۔پاکستان اس لحاظ سے بڑا ہی خوش قسمت ملک ہے کہ اسے ورثے میں بہادر لوگوں کی محبتیں ملی ہیں۔ آج جس جذبے کے ساتھ ہماری مسلح افواج شرپسندوں اور دہشتگردوں کی گردنیں ماپ ری ہیں اسی جذبے ‘ہمت اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ ہماری سیاسی قیادتوں کی طرف سے بھی دکھائی دے رہا ہے خصوصاً اٹک پار کے پاکستانی اس ملک کی بقاءکی جنگ میں سب سے برتر ثابت ہورہے ہیں!۔