Nov
23
|
Click here to View Printed Statment
قومی وحدت اور ملی یکجہتی کو دورِ آمریت میںجو زخم لگائے گئے تھے‘ وہ رِس رِس کرناسور بن چکے ہیں۔درد کی لہریں وفاقیت کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور محب وطن حلقے شدید اضطراب میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔آج کھلے عام ”آزاد بلوچستان“ کے مطالبات ہورہے ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے بلوچستان کے مرکزی شہروں میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں کے احوال اخبارات میں شائع ہورہے ہیں ۔امریکہ سمیت یورپ کے مختلف ممالک میں بلوچوں کی آزادی کے حوالے سے کئی تھنک ٹینک کام کررہے ہیں اور بلوچستان کے اِشوکو آگ دکھانے اور شعلے بھڑکانے میں بھارت کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہر روز کسی نہ کسی انداز میں بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی عالمی سطح پر سرپرستی ہوتی ہے اور ”شہدائے آزادی“ کے نام سے کتابیں شائع کروائی جارہی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ہماری سیاسی اور فوجی قیادتوں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کے خالصتاً سیاسی اور اقتصادی مسائل کو فوجی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ہم بھگت چکے ہیں لیکن سولہ دسمبر 1971ءکے اس المیے سے ہم نے کسی قسم کا سبق نہیں سیکھا۔بدقسمتی سے بلوچستان جو کہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ اور معدنیات کے لحاظ سے زرخیز ترین علاقہ ہے‘ اس میں بسنے والے لوگوں کو ہم نے بندوق کی نوک پر سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کبھی ان کو اپنے ساتھ بیٹھاکر اپنے گلے لگا کر ان کے دکھ نہیں سنے۔ ان کی دلجوئی نہیں کی اور انہیں ان کے حقوق نہیں دیئے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی انا اور ضد کا اسیر ہو کر نواب اکبر بگٹی کو ایک آپریشن کے دوران ہلاک کرا دیا اور یوں سلگتا بلوچستان بھڑک اٹھا۔آج آگ ہے کہ ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس قدر ٹھنڈا کرنے کا شور مچاتے ہیں اسی قدر وہ بھڑکتی ہے۔
یہ نہیں کہ سیاسی قوتوں نے بلوچستان اِشو کو حل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ مشرف دور میں چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میںایک کمیٹی بنی تھی۔مشاہد حسین سید بھی اس کمیٹی میں شامل تھے۔بلوچ رہنماﺅں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔کمیٹی نے بڑی جامع سفارشات بھی مرتب کیں۔ لیکن مہم جُو مشرف نے اصلاح احوال کی ہر کوشش کو سبوتاژ کردیا۔آج کی مرکزی حکومت ”بلوچستان پیکج“ کے نام سے بلوچ عوام کو خوش کرنے کے لئے ایک جامع منصوبہ بنا چکی ہے۔دعا کی جانی چاہیے کہ اس منصوبہ کو عملی جامعہ پہنایا جاسکے تاکہ وفاق پاکستان کسی خوفناک مُشکل میں دوچار ہونے سے بچ جائے۔بلوچ عوام کو گلے لگانے کے حوالے سے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کا کردار بہرحال ہماری قومی تاریخ کا ایک شاندار باب کہلائے گا۔ جس تواتر کے ساتھ جناب شہباز شریف نے کوئٹہ کے دورے کئے ہیں اور وہاں جا کر بلوچ رہنماﺅں کے ساتھ وقت گزارا ہے وہ واقعتاً بڑے بھائی والا سلوک ہے ۔ شہباز شریف نے چھوٹے صوبوں کو ایک تاریخی پیغام بھی دیا ہے کہ ”پنجاب بڑا نہیں برابر کا بھائی ہے اور وفاق کے اندر تمام صوبے برابر ہیں“۔
افسوس کیساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ بلوچستان میں حقوق کے حوالے سے جب بھی کوئی تحریک زور پکڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں اور تشدد کا شکار ہونے والے زیادہ تر وہ پنجابی ہیں جو وہاں آباد ہیں ‘وہیں ان کی اولادیں ہوئیں وہیںان کے کاروبار ہیں۔ پنجاب کے خلاف اس قدر نفرت کا سبب سمجھ سے بالاتر ہے۔ وطن دشمن طاقتیں صوبائی منافرت پھیلا کر ہی اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہیں اور دشمن کی اس ناپاک سازش کو ناکام بنانے اور وفاق کو بچانے کے لئے جناب شہبازشریف نے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان محبتیں پروان چڑھانے کا ایک کٹھن کام شروع کر رکھا ہے۔کوئٹہ کے اندر لاہور طرز کا کارڈیالوجی سنٹر اپنی بنیادوں پر ابھرنے لگا ہے۔بلوچ طالب علموں کو پنجاب کی طرف سے وظائف دیئے جارہے ہیں اور بین الصوبائی رابطوں کو مستحکم کرنے کے لئے بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقے سوچے جارہے ہیں۔ پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی پارٹیاں بلوچستان کی آواز سننے میں ہمہ تن گوش ہیں اور جناب شہبازشریف اپنے بڑے بھائی جناب میاںمحمد نوازشریف کی سرپرستی میں روٹھے ہوئے بلوچستان کو منا لینے میں بڑی حد تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں کوئٹہ کے اندر بلوچ رہنماﺅں ‘ وزیراعلیٰ بلوچستان جناب اسلم رئیسانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔یوں محسوس ہوا کہ وفاق پاکستان اورصوبائی حقوق و خودمختاری کے حوالے سے بلوچستان اور پنجاب کی سوچ ایک ہوچکی ہے۔پنجاب نے چھوٹے صوبوں خصوصاً صوبہ بلوچستان کی خاطر نیشنل فنانس ایوارڈ کے اجلاسوں میں اپنے اصولی مﺅقف کی کئی بار قربانی بھی دی ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کے لوگ دھیرے دھیرے ایک ہورہے ہیں۔ پنجاب بلوچ….سانجھی سوچ والی منزل قریب آسکتی ہے !