Jan
15
|
Click here to View Printed Statement
امریکہ سمیت دنیا کے طول و عرض میں فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے جاری ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی عوامی سطح پر اسرائیلی بربریت کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔ مذمتی بیانات کی حد تک مسلمان حکمران کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ عرب ریاستوں کے بادشاہ ہوں یا مشرق بعید کے مسلمان ممالک …. سب نے لفظی مذمت کی حّد تک اتمام حجت کردی ہے۔ سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرارداد بھی پاس کردی ہے۔ اور مغربی ممالک بھی طوعا ًکرہاً اسرائیل کو جنگ بند کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یوںمحسوس ہوتا ہے
کہ فلسطین میں فاسفورس بموں کے ذریعے جلا ڈالے جانے والے سینکڑوں بچوں کی چیخیں انسانیت کے اجتماعی ضمیر کو کچھ زیادہ جھنجھوڑ نہیں سکیں۔ کسی ملک نے جرا ءت کرکے اسرائیلی سفیر کو طلب نہیں کیا۔ کسی مسلم ملک نے اسرائیل کا سفارت خانہ بند نہیں کیا۔کہیں سے اطلاع نہیںآئی کہ صہونیوں کی کھلی دہشتگردی کو روکنے کے لئے کسی مسلم ملک نے حماس کے مجاہدین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہو۔ ہر کہیں اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے چند مذمّتی بیانات‘ اظہار تاسف کے روایتی کلمات اور قاتل اور مقتول دونوں کی طرف داری پر مبنی قراردادیں سامنے آرہی ہیں۔یہ ہے ساڑھے چھ ارب انسانوں کی طرف سے مٹھی بھر صہیونی دہشتگردوں کے محاسبے کا انداز!
ایک طرف ابراہیمی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے لئے خادم حرمین شریفین نے بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقادکا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور دوسری طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت ہونے کے دعویدار نہ صرف عرض مقدّس پر قابض ہیں بلکہ غزہ کے اندر صہیونی بستیوں کے قیام کے لئے وہاں موجود فلسطینیوں کا قتل عام کرنے میں مصروف ہیں اور دنیا کی سرداری کی دعویدار امریکی حکومت نہ صرف یہ کہ اسرائیل کی برابر پیٹھ ٹھونک رہی ہے بلکہ الٹا مجروح اور مظلوم فلسطینیوں کی دہشتگرد قرار دینے پر اصرار بھی کر رہی ہے۔
حماس نے گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ پہلے تو اسے اس کے جمہوری حق سے محروم کرتے ہوئے واحد اکثریتی پارٹی کو وہاں حکومت بنانے سے روکا گیا۔حماس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اسلام کے نام لیوا ہیں اور امریکہ کی حکومت میں حاوی صلیبی گروہ مشرق وسطیٰ میں کسی اسلامی ریاست کو قائم ہونے نہیں دینا چاہتا۔ فلسطینیوں کے مفادِ عامہ اور امن کی خاطر حماس نے اپنی انتخابی برتری کی قربانی دیتے ہوئے سیکولر جماعت الفتح سے اتحاد کیا اور ایک متحدہ حکومت بنائی لیکن اس پر بھی فلسطین کی اتھارٹی کو امداد اور فنڈز سے محروم کردیا گیا۔ اب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا عرصہ صدارت ختم ہوچکا ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل اور ان کے حواری عرب ممالک چاہتے ہیں کہ اقتدار میں حماس کا ہر حال میں راستہ روکا جائے اورمحمود عباس کو کسی نہ کسی طرح صدر کے عہدہ پر براجمان رکھا جائے۔ اس قدر دہرے معیارات‘اس قدر ناانصافی…. اور پھر واویلا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا امن اور انسانی حقوق کی چیمپئن ہے!
تیل کا ہتھیار شائد آج کے دور میں قابل عمل نہ رہا ہو لیکن او آئی سی کے متعدد ارکان اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عرب ریاستوں کے درمیان گھرے ہوئے اس معمولی سے ملک کو ظلم و بربرّیت سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔ کیا اتنا بھی نہیںہوسکتا کہ فی الفور سفارتی تعلقات منقطع کردیئے جائیں۔ ایک پاکستانی سیاستدان نے عرب ریاستوں کی حیثیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ٹھیک ہی ”پٹرول پم“ کہا تھا۔ اپنے خاندانی اور شخصی اقتدار کو بچانے کے لئے امریکہ کی کاسہ لیسی نے مسلم حکمرانوں کو اپنے عوام سے بہت دور کردیا ہے اور اگر آمرانہ اور امریکی سرپرستی میں چلنے والے کسی ایک مسلمان ملک کی حکومت کا آزاد عوام کے ہاتھوں تختہ الٹ گیا تو پھر خوفناک انقلاب کسی بھی جغرافیائی سرحد پر نہیں رکے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ مسلمان حکمران دیوار پر لکھی تقدیریں پڑھیں۔ مشترکہ دفاعی نظام قائم کریں اور عالمی امورمیں متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔ ورنہ اگر آج حماس کی کمر توڑ دی گئی تو پھر اسرائیل کے لئے خانہ کعبہ تک پہنچنا مشکل کام نہیں رہے گا اور امریکہ مشرق وسطیٰ میں بڑے عرصے سے یہی چا رہا ہے کہ مسلمانوں کے مرکز و محور اس کے کنٹرول میں آجائیں۔ محض مذمتی بیانات صرف فلسطینیوں کی مجبوریوں پر قہقہ لگانے کے مترادف ہوں گے۔