Dec
11
|
Click here to View Printed Statment
دنیا پر غالب سرمایہ دارانہ نظام نے متوسط طبقہ کو نچوڑ کر رکھ دیاہے۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کی عدم دستیابی نے پہلی دنیا سمیت ساڑھے چھ ارب انسانوں کو بے چین کررکھا ہے۔ بنیادی ضرورتوں سے محروم لوگ یورپ کے ہوں ‘ امریکی ریاستوں میں بستے ہوں‘
افریقی ہوں‘ ایشیائی ہوں یا مشرق بعید میں مشقت کرتے ہوں اس دن کے منتظر ہیں جب دولت چند ہاتھوں سے نکل کر عوام الناس کی رگوں میںخون بن کر دوڑے گی اور ورکنگ کلاس کو ان کی کارکردگی اور صلاحیت کے مطابق معاوضے ملنا شروع ہوں گے۔ انسانی خوشحالی کی منزل اسی عہد میںحاصل ہوگی جس دور میں ارتکاز دولت کا شیطانی کھیل ختم ہوگا ورنہ امیر ملکوں کے اجلاسوں کے دوران ہزاروں اور لاکھوں لوگ مظاہرے کرتے رہیں گے جلاﺅ گھیراﺅ ہوتا رہے گا اور متوسط طبقہ خط غربت پر پہنچ کر کسی بڑے عالمی خونی انقلاب کا ایندھن بن جائے گا۔
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی غریبوں کے نام پروجود میں آئی تھی۔آج کی پی پی پی میں غریبوں کی نمائندگی صرف گلی محلہ تک محدود ہوگئی ہے۔ ان کا کام صرف قطاروں میں لگ کر ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے نام پر ووٹ ڈالنا رہ گیا ہے۔ پی پی پی کی حکومت بن گئی لیکن غریب اور متوسط طبقہ کی بڑے ایوانوںمیں موجودگی ایک خواب بن گیا۔ کراچی سے خیبر تک اور خضدار سے گلگت تک جتنے منتخب نمائندے وزراءاور مشیر منظر پر چھائے ہوئے ہیں ان میں نام کی حد تک بھی متوسط گروہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔پارٹی قیادت سے لے کر حکومتی قیادت تک سب کے سب لوگ چند گھرانوں اور چند گروہوں کے لوگ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اربوں روپے تقسیم کئے جانے کے باوجود غربت کی شرح میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور معاشرے کی جان مڈل کلاس بے آس ہو کر رہ گئی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)خودکو دوسری بڑی سیاسی جماعت تصور کرتی ہے لیکن پارٹی کی حالیہ تنظیم نو میں متوسط طبقے کے کسی شخص کوکوئی نمایاں پوزیشن نہیں دی گئی۔ ایک خاندان اور اس خاندان کے متموّل وفادار لوگوں کو ہی آگے لایا گیا ہے۔پنجاب میں اکثریت ان عہدیداروں کی ہے جو معروف معنوں میں شائد جاگیردار اور وڈیرے نہ ہوں لیکن دولت مندی اور سیاسی سوچ کے اعتبار سے ان کا شمار بحر صورت طبقہ اشرافیہ میںہی ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کی باگ دوڑ جناب شہبازشریف کے سپرد کرکے انہیں چیف آرگنائزر مقررکر دیا گیا ہے۔ پوری سیاست ایک فیملی افیئر بن کر رہ گیا ہے ۔متوسط طبقہ اپنی استعداد اور تعداد کے حوالے سے روز بروز کم ہورہا ہے۔وہ لوگ جو اپنی سفید پوشی اور نیک سیرتی کے سبب اپنی ایک ساکھ اور پہچان رکھتے ہیں‘غربت کی اتھاہ گہرائیوںمیں گم ہورہے ہیں۔ معاشرتی توازن اور قومی ترقی کا ضامن یہ سفید پوش طبقہ معاشی مجبوریوں اور سیاسی محرومیوں کے سبب حکومتی اور ریاستی امور سے لاتعلق ہوتا جارہاہے۔
جہاں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے۔ان کے نزدیک شائد انسانوں کا معاشی اور سماجی مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ ان کی سیاست کا محور چند غیر انسانی قسم کے اشوز ہوتے ہیں اور وہ جذباتی نعروں اور استحصالی نظریوں کی بنیاد پر تحریکیں اٹھاتے‘حکومتیں گراتے اور لوگوںکو ہیپناٹائز رکھتے ہیں۔اسلام اور قرآن کے حقیقی تقاضوں اور بشریت کے لئے خدا کی طرف سے جاری ہونے والے احکامات کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے۔ عوام الناس کو صرف” گو امریکہ گو“ اور ”آ امریکہ آ“ کے گورکھ دھندے میں الجھائے رکھتے ہیں۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں‘ معاشی اور تہذیبی ارتقاءکے مطالبے ان کے نزدیک غیر شرعی قرار پاتے ہیں۔ ان کے اسلام اور شریعت کی جھلک اہل سوات نے سزا کے طور پر بھگتی ہے۔حیرت انگریز المیہ یہ کہ ان جماعتوں کے سرگرم کارکنوں کا کثیر حصہ مڈل کلاسیوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ خدا جانے کب یہ جماعتیں اسلام کے معاشی نظام کی طرف توجہ دیں گے!
متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ تیس برس سے متوسط طبقہ کی سیاست کر رہی ہے۔ اس سیاسی جماعت کی پہلی دہائی تشدد کا شکار رہی ہے لیکن گزشتہ بیس برس سے انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھا ہے۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا پاکستان کی خوش قسمتی کہ متحدہ کا کارکن اور قائد دونوں کا تعلق غریب اور متوسط طبقہ سے ہے۔ متحدہ کے سیاسی انداز سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے سیاسی نظریے سے اس لئے اختلاف ممکن نہیں کہ انہوں نے ایوان ہائے اقتدار میں جن لوگوں کو نمائندگی کا حق دیاہے وہ وزارتیں اور مشاورتیں نبھانے کے باوجود وڈیرے اور جاگیردار نہ بن سکے۔آج بھی صوبہ سندھ کے اکثر حق پرست ایم پی اےز بسوں پر سفر کرتے اور ان کی میٹنگز کا مینیو چائے سموسے تک ہی محدود رہتا ہے۔
متحدہ نے اپنے سیاسی مزاج میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کو ابھی تک گھسنے نہیں دیا اور آج ان کی ہر لیول کی سیاسی قیادتیں کسی ایک خاندان یا کسی ایک علاقے یا گروہ تک محدود نہیں ہیں۔پارٹی اور عوامی خدمت کے لئے جو جس قدر متحرک ہے اسی قدر اس کی سیاسی حیثیت بھی تسلیم ہوتی ہے۔
کیا متحدہ اپنے اس سیاسی فلسفہ کو ملک بھر کے سفید پوش طبقوں کو متحرک کرنے کے لئے کار آمد بناسکے گی؟ کیا اس ملک کے مڈل کلاسیئے کبھی متحد ہوسکیں گے۔؟